بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعمال کا ایصال ثواب کرنے کا حکم


سوال

ایصال ثواب کے بارے میں کسی نے کہا کہ آپ نفل نہ پڑھیں بس صرف دعا کریں ۔سوال یہ ہے کہ کیا نفلی نمازیں ،روزے،عمرہ،صدقہ  یا پھر کوئی بھی نیکی فرض،واجب کے علاوہ ایصال ثواب نہیں کرسکتے؟ بس صرف دعا کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اہلِ سنت والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے  ہیں  ان کے لیے دعا بھی کی جا سکتی ہے  اور ان کو اعمال کا ثواب بھی ہدیہ کیا جا سکتا ہے،خواہ پڑھ کربخشا جائے یا خیرات اور حسنات بخشے جائیں۔ میت کے لیے نمازِ جنازہ اور دیگر مواقع پر دعا کرنا تو قرآن وحدیث کی بہت سے نصوص سے ثابت ہے۔ اعمال کا ایصالِ ثواب بھی کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے:

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي."

(كتاب الزكاة، باب فضل الصدقة، ج:1، ص:597، رقم:1912، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

"ترجمه: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور فرمایا کہ یہ سعد کی والدہ کے لیے ہے۔"

اس حدیث میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانی کے صدقہ کا ثواب پہنچانے کا امر فرمایا، معلوم ہواکہ صدقے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»."

(كتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات الي الميت، ج:5، ص:73، رقم:1630، ط:دار الطباعة العامرة - تركيا

"   ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔"

معلوم ہوا کہ ایصالِ ثواب کا میت کو فائدہ ہوتا ہے۔

سنن أبي داودمیں ہے:

"عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما»."

(كتاب الأدب، باب في بر الوالدين، ج:4، ص:336، رقم:5142، ط:المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

"   ترجمہ:حضر ت ابواُسید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سےدریافت کیا:یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔"

اس طرح کی اور بھی کئی روایات ثابت ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایصالِ ثواب بر حق ہے اور اعمال کا مرحومین تک پہنچنا بھی برحق ہے؛ لہذا دعا کے ساتھ ساتھ نفلی نماز ،روزے اور دیگر اعمال کا ثواب اپنے مرحومین کو بخشا جاسکتا ہے،لہذا مذکورہ آدمی کا نفلی نماز ، روزے، عمرہ ، صدقہ وغیرہ کے علاوہ کسی بھی نیکی کے ایصالِ ثواب سے منع کرنا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في البحر بحثاً: أنّ إطلاقھم شامل للفریضة لکن لایعود الفرض في ذمته؛ لأنّ عدم الثواب لایستلزم عدم السقوط عن ذمته اھ علی أنّ الثواب لاینعدم ..."الخ

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج:2، ص:595، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"و في البحر: من صام أو صلّی أو تصدق و جعل ثوابه لغیرهم من الأموات و الأحیاء جاز، و یصل ثوابها إلیهم عند أهل السنة و الجماعة، كذا في البدائع ... و بهذا علم أنّه لافرق  بین أن یکون المجعول له میتًا أو حیًّا ... و أنّه لافرق بین الفرض و النوافل اهـ ."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:243، ط:سعید)

سکب الأنھر مع المجمع میں ہے:

"(وللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره في جمیع العبادات) فرضاً أو نفلاً."

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج:1، ص:458، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں