بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عام مسلمان کے لیے بغیر استاد کے قرآن کریم (ترجمہ/تفسیر) پڑھنا / سمجھنا بہتر نہیں


سوال

میرے ساتھ کام کرنی والا لڑکی جو فلیفن سے تعلق رکھتی ہے وہ قرآن سیکھنا چاہتی ہے اور اسلام قبول کرنا چاہتی ہے، لیکن مجھے قرآن مجید کا انگلش ترجمہ چاہیے۔

جواب

فی الحال ہمارے دارالافتاء کی ویب سائٹ پر قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر سے استفاد کی سہوت دستیاب نہیں، آپ مذکورہ خاتون کے لیے ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘  کا انگلش ترجمہ بازار سے لے سکتے ہیں، تاہم صوررتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون واقعۃً اسلام قبول کرکے قرآنِ مجید سمجھنا چاہتی ہے تو اُس کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی مستند عالمِ دین سے پردے کے اہتمام کے ساتھ یا پھر کسی معلمہ کی خدمات حاصل کرکے ان کی نگرانی میں قرآن کریم کو سمجھے، تاکہ قرآنِ مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق سمجھنا ممکن ہو، عام آدمی سے سمجھنے یا اپنے قوتِ مطالعہ پر اعتماد کرتے ہوئے سمجھنے کی کوشش نہ کرے، کیوں کہ رطب و یابس (نیک وبد /صحیح و غلط) میں فرق کرنا عام مسلمان کے لیے ممکن نہیں، یہ کسی ماہر (استاذ) مستند عالم /عالمہ سے ہی ممکن ہے، از خود  قرآن کی تفسیر پڑھنے میں یہ احتمال رہتا ہے کہ   غلط مطلب کو درست سمجھ بیٹھے اور اس کے مطابق اعتقاد رکھے یا عمل کرے، یہ گمراہی اور فتنے سے خالی نہیں۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا العباس بن عبد الله الواسطي، حدثنا عبد الله بن غالب العباداني، عن عبد الله بن زياد البحراني، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب عن أبي ذر، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آيةً من كتاب الله، خير لك من أن تصلي مائة ركعة، ولأن تغدو فتعلم باباً من العلم، عمل به أو لم يعمل، خير من أن تصلي ألف ركعة»".

ترجمہ:"حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تو صبح کو جا کر کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھے یہ تیرے لیے سو رکعت نماز سے بہتر ہے اور تو صبح جا کر علم کا ایک باب سیکھے خواہ اس پر (اسی وقت) عمل کرے یا نہ کرے یہ تیرے لیے ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے"۔

(أبواب السنة، باب من فضائل، باب فضل من تعلم القرآن وعلمه، ج:1، ص:148، ط:دار الرسالة العالمية)

تفسیر ابن کثیرمیں ہے:
"ثم قال تعالى: وأنزلنا إليك الذكر يعني القرآن لتبين للناس ما نزل إليهم أي من ربهم لعلمك بمعنى ما أنزل الله وحرصك عليه واتباعك له، ولعلمنا بأنك أفضل الخلائق وسيد ولد آدم، فتفصل لهم ما أجمل وتبين لهم ما أشكل ولعلهم يتفكرون أي ينظرون لأنفسهم فيهتدون فيفوزون بالنجاة في الدارين".

(سورة النحل، الآية:44، ج:4، ص:493، ط:دار الکتب العلمیة)

الإتقان فی علوم القرآن میں ہے: 

"وقد قال أبو عبد الرحمن السلمي: حدثنا الذين كانوا يقرؤون القرآن كعثمان بن عفان وعبد الله بن مسعود وغيرهما أنهم كانوا إذا تعلموا من النبي صلى الله عليه وسلم عشر آيات لم يتجاوزوها حتى يعلموا ما فيها من العلم والعمل قالوا: فتعلمنا القرآن والعلم والعمل جميعا ولهذا كانوا يبقون مدة في حفظ السورة وقال أنس: كان الرجل إذا قرأ البقرة وآل عمران جد في أعيننا رواه أحمد في مسنده.. وأقام ابن عمر على حفظ البقرة ثمان سنين أخرجه في الموطأ".

(‌‌النوع الثامن والسبعون: في معرفة شروط المفسر وآدابه، ج؛4، ص:202، ط:الهيئة المصرية العامة للكتاب)

و فیہ أیضاً:

"وقال صلى الله عليه وسلم: "من تكلم في القرآن برأيه، فأصاب فقد أخطأ"، أخرجه أبو داود والترمذي والنسائي وقال: "من قال في القرآن بغيرعلم فليتبوأ مقعده من النار" أخرجه أبو داود".

(‌‌النوع الثامن والسبعون: في معرفة شروط المفسر وآدابه، ج؛4، ص:210، ط:الهيئة المصرية العامة للكتاب)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں