بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عام موزوں پر مسح کرنے والے امام کی اقتدا کرنا


سوال

 میں بیرون ملک کام کرتا ہوں، جہاں پر اکثر نماز با جماعت پڑھانے کے لیے ایسے (مصری) لوگ امامت کرنے آگے آجاتے ہیں جو وضو کرتے وقت پاؤں نہیں دھوتے، بلکہ نارمل جرابوں کے اوپر مسح کرتے ہیں، کیا اس طرح میری نماز ادا ہوجائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ امت کے تمام مستند فقہاء و مجتہدین کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ باریک موزے جس سے پانی چھن جاتا ہو، یا وہ کسی چیز سے باندھے بغیر پنڈلی پر کھڑے نہ رہتے ہوں، یا ان میں تین میل مسلسل چلنا ممکن نہ ہو، ان پر مسح جائز نہیں ہے۔ چوں کہ ہمارے زمانے میں جو سوتی، اونی، نائیلون کے موزے رائج ہیں وہ باریک ہوتے ہیں اور ان میں مذکورہ اوصاف نہیں پائے جاتے؛ اس لیے ان پر مسح کسی حال میں جائز نہیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ بلکہ کسی بھی مجتہد کے مسلک میں اس کا وضو صحیح نہیں ہوگا۔ جب امام کا وضو صحیح نہیں ہوگا تو مقتدیوں کی نماز بھی صحیح نہیں  ہوگی۔ اور ایسے امام کی اقتدا ناجائز ہے؛ اس لیے ایسے امام کی اقتدا میں نماز کا اہتمام کیا جائے جو مروجہ اونی یا نائلون کی جرابوں پر مسح نہ کرتاہو، اگر  قریب میں ایسی مسجد نہیں ہے اور نہ کسی دوسری جگہ باجماعت نماز ادا کرنے کی کوئی صورت ہے تو  ایسے امام کی اقتدا کے بجائے تنہا ہی نماز ادا کرے، البتہ جب تک کسی امام کے بارے میں باوثوق ذرائع سے معلوم نہ ہو کہ وہ اونی یا سوتی جرابوں پر مسح کرتاہے صرف شک کی بنا پر جماعت ترک نہ کی جائے۔

وفي البحر الرائق:

"ولا یجوز المسح علی الجورب الرقیق من غزل أو شعر بلا خلاف ولو کان ثخینا یمشي معہ فرسخًا فصاعدًا فعلی الخلاف." ( 1/192، ط دیوبند) 

وفي البدائع:

"فإن کانا رقیقین یشفّان الماء لایجوز المسح علیھما بالإجماع." ( 1/83/ ط زکریا دیوبند)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"ومن أم بأجرة قهستاني زاد ابن ملك: ومخالف كشافعي؟ لكن في وتر البحر إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح، وإن شك كره.

(قوله: لكن في وتر البحر إلخ) هذا هو المعتمد، لأن المحققين جنحوا إليه، وقواعد المذهب شاهدة عليه. وقال كثير من المشايخ: إن كان عادته مراعاة مواضع الخلاف جاز وإلا فلا، ذكره السندي المتقدم ذكره ح.

قلت: وهذا بناء على أن العبرة لرأي المقتدي وهو الأصح." (رد المحتار1/ 562ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں