بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 رجب 1446ھ 14 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

عام حالات اور کورونا میں گھروں میں جمعہ و عیدین کا فرق


سوال

عام حالات میں گھروں میں جمعہ وعیدین کے عدم جواز اور  کرونا وائرس  کے دوران جواز کے علل کیا ہیں اور ان کے درمیان کیا فرق ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عید کی نماز دین کے شعائر میں سے بنیادی شعار ہے،(1) اورعید کی نماز سے مقصود مسلمانوں کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان ایک جماعت میں شریک ہوسکیں۔(2)

 شہر، فنائے شہر اور بڑا گاؤں جہاں جمعہ قائم کرنے کی شرائط پائی جاتی ہیں وہاں عید کی نماز پڑھنا واجب ہے، تاہم جمعہ اور عید کی نماز کی شرائط میں فرق یہ ہے کہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے خطبہ شرط ہے ، جب کہ عید کی نماز کے لیے خطبہ شرط نہیں، سنت ہے،(3) اسی طرح عید کی نماز کے لیے اذنِ عام کا ہونا بھی شرط نہیں، جمعہ اور عید کی نمازوں کے لیے جماعت کا ہونا شرط ہے، انفرادی طور پر جمعہ یا عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں، جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، لیکن جمعہ اور عید کی جماعت کے لیے کتنے افراد ضروری ہیں؟ اس میں فرق ہے، جمعہ کی نماز درست ہونے کے لیے امام کے علاوہ تین مردوں کا ہونا ضروری ہے اور عید کی نماز کے لیے امام کے علاوہ ایک مرد کا ہونا کافی ہے۔(4)

جن ممالک  میں حکومت کی طرف سے مساجد یا عید کی نمازوں پر پابندی نہ ہو وہاں گھروں میں عید کی نماز ادا کرنے کے بجائے عیدگاہ یا بڑےمجمع میں  یا مساجد میں ادا کرنے کا اہتمام ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کی شان وشوکت اظہار ہو۔

البتہ  اگر کسی ملک میں موجودہ حالات کی وجہ سے  حکومت نے عید گاہ یا مسجد میں عید کی نماز پڑھنے پر پابند ی لگائی ہو تو   شہر، فنائے شہر یا بڑے گاؤں کے رہنے والے مسلمان ممکنہ حد تک کوشش کریں کہ وہ عید کی نماز عید گاہ میں یا مسجد میں پڑھ سکیں، لیکن اگرعید کی نماز عید گاہ یا مسجد میں پڑھنا بالکل ممکن نہ ہو تو  گھر کی چھت، صحن یا بلڈنگ کی پارکنگ وغیرہ میں چند افراد جمع ہو کر عید کی نماز پڑھ لیں۔

حوالہ جات:

(1)      بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  (3 / 84):

"ولأنها من شعائر الإسلام فلو كانت سنةً فربما اجتمع الناس على تركها فيفوت ما هو من شعائر الإسلام؛ فكانت واجبةً؛ صيانةً لما هو من شعائر الإسلام عن الفوت".

(2)      صحيح البخاري (2 / 22) ط: دار الشعب:

"عن أبي سعيد الخدري ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى فأول شيء يبدأ به الصلاة ثم ينصرف".

فتح الباري (2 / 450):

"واستدل به على استحباب الخروج إلى الصحراء لصلاة العيد وأن ذلك أفضل من صلاتها في المسجد؛ لمواظبة النبي صلى الله عليه و سلم على ذلك مع فضل مسجده".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 169):

"وفي الخلاصة والخانية: السنة أن يخرج الإمام إلى الجبانة، ويستخلف غيره ليصلي في المصر بالضعفاء بناء على أن صلاة العيدين في موضعين جائزة بالاتفاق، وإن لم يستخلف فله ذلك. اهـ. نوح".

الفتاوى الهندية - (1 / 150):

"الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات".

(3)      بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  (3 / 85):

"وأما شرائط وجوبها وجوازها فكل ما هو شرط وجوب الجمعة وجوازها فهو شرط وجوب صلاة العيدين وجوازها من الإمام والمصر والجماعة والوقت إلا الخطبة فإنها سنة بعد الصلاة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 166):

"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها".

و في الرد:

"(قوله: فإنها سنة بعدها) بيان للفرق وهو أنها فيها سنة لا شرط وأنها بعدها لا قبلها بخلاف الجمعة. قال في البحر: حتى لو لم يخطب أصلاً صحّ وأساء؛ لترك السنة، ولو قدمها على الصلاة صحت وأساء ولاتعاد الصلاة".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (3 / 89):

"وأما الخطبة فليست بشرط؛ لأنها تؤدى بعد الصلاة وشرط الشيء يكون سابقًا عليه أو مقارنًا له، والدليل على أنها تؤدى بعد الصلاة ما روي عن ابن عمر أنه قال: { صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وخلف أبي بكر وعمر رضي الله عنهما وكانوا يبدءون بالصلاة قبل الخطبة}، وكذا روي عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال: { صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وخلف أبي بكر وعمر وعثمان فبدءوا بالصلاة قبل الخطبة ولم يؤذنوا ولم يقيموا} ولأنها وجبت لتعليم ما يجب إقامته يوم العيد والوعظ والتكبير فكان التأخير أولى ليكون الامتثال أقرب إلى زمان التعليم".

(4)    الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 166):

"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها".

و في الرد:

"لكن اعترض ط ما ذكره المصنف بأن الجمعة من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام، كما في النهر".

الفقه على المذاهب الأربعة  (1 / 531):

"الحنفية قالوا: صلاة العيدين واجبة في الأصح على من تجب عليه الجمع بشرائطها سواء كانت شرائط وجوب أو شرائط صحة إلا أنه يستثنى من شرائط الصحة الخطبة فإنها تكون قبل الصلاة في الجمعة وبعدها في العيد ويستثنى أيضًا عدد الجماعة فإن الجماعة في صلاة العيد تتحقق بواحد مع إمام بخلاف الجمعة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں