بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عالمہ صالحہ لڑکی کا والدین کی اجازت کے بغیر جاہل فاسق لڑکے سے نکاح کرنا


سوال

۱۔ ایک عالمہ لڑکی نے بھاگ کر ایک جاہل لڑکے سے غیر قوم میں نکاح کیا ، تو یہ نکاح منعقد ہوا یا نہیں ؟ واضح رہے کہ لڑکی کے والد صاحب نیک صالح قاری صاحب ہیں اور لڑکی بھی صالحہ ہے ،جبکہ لڑکا ڈاڑھی منڈھا ،فاسق و فاجر ہے ۔

۲۔مندرجہ بالا صورت میں کفو اور غیر کفو  میں نکاح پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں ؟

۳۔ عجم قوموں میں مثلا:پٹھان ،سندھی پنجابی اور سرائیکی قوموں میں کفو کا اعتبار ہے یا نہیں ؟ یعنی یہ قومیں آپس میں کفو ہیں یا غیر کفو ؟

فقہ حنفی کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

۱،۲۔واضح رہے کہ اگر عاقل بالغ لڑکا  یا لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر  یا خفیہ طور پر گواہوں کی موجودگی میں  اپنا نکاح خود کرے تو  شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے،البتہ اگر  لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر    غیر کفو  میں (بے جوڑ میں) نکاح کیا   تو   اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک لڑکی کے اولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو  (برابری) میں نکاح کیا ہے تو پھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا،  کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،  نسب ،مال ا و  رپیشہ میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔

صورت مسؤلہ میں چونکہ لڑکی  عالمہ اور  صالحہ ہے اور لڑکا  جاہل اور فاسق ہے تو دین کے اعتبار سے کفو نہ ہونے کی وجہ سے لڑکی کے اولیاء کو اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہے ۔

۳۔عجم قوموں میں حسب و نسب کے اعتبار سے کفو کا اعتبار نہیں ،لہذا پٹھان ،سندھی ،پنجابی اور سرائیکی  حسب و نسب میں ایک دوسرے کے  ہم کفو ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا". 

(3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". 

(2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

         فتاوی شامی میں ہے:

"ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط". 

(3/ 86، کتاب النکاح، باب الکفاءۃ، ط: سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش".

(3/ 293، کتاب النکاح، باب الاولیاء والاکفاء، فصل فی الکفاءۃ، ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما".

(1/ 292، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ).

فتاوی شامی میں ہے :

"وهذا في العرب(و) أما في العجم فتعتبر (حرية وإسلاما)

(قوله وهذا في العرب) أي اعتبار النسب إنما يكون في العرب فلا يعتبر فيهم الإسلام كما في المحيط والنهاية وغيرهما ولا الديانة كما في النظم ولا الحرفة كما في المضمرات لأن العرب لا يتخذون هذه الصنائع حرفا، وأما الباقي أي الحرية والمال فالظاهر من عباراتهم أنه معتبر قهستاني لكن فيه كلام ستعرفه في مواضعه

(قوله وأما في العجم) المراد بهم من لم ينتسب إلى إحدى قبائل العرب، ويسمون الموالي والعتقاء كما مر وعامة أهل الأمصار والقرى في زماننا منهم، سواء تكلموا بالعربية أو غيرها إلا من كان له منهم نسب معروف كالمنتسبين إلى أحد الخلفاء الأربعة أو إلى الأنصار ونحوهم (قوله فتعتبر حرية وإسلاما) أفاد أن الإسلام لا يكون معتبرا في حق العرب كما اتفق عليه أبو حنيفة وصاحباه لأنهم لا يتفاخرون به، وإنما يتفاخرون بالنسب فعربي له أب كافر يكون كفؤا لعربية لها آباء في الإسلام، وأما الحرية فهي لازمة للعرب لأنه لا يجوز استرقاقهم، نعم الإسلام معتبر في العرب بالنظر إلى نفس الزوج لا إلى أبيه وجده، فعلى هذا فالنسب معتبر في العرب فقط وإسلام الأب والجد في العجم فقط والحرية في العرب والعجم وكذا إسلام نفس الزوج هذا حاصل ما في البحر۔"

(رد المحتار3/ 87ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں