کیا ایک عالمہ نکاح پڑ ھا سکتی ہے؟
نکاح کے انعقاد کے لیے بنیادی چیز شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرنا ہے۔ اگر زوجین خود گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کر لیں تو بھی نکاح ہو جائے گا، نکاح خواں کی حیثیت محض ترجمان اورمعبر کی ہوتی ہے۔ عام طور پر نکاح خواں عالم دین یا قاضی ہوتا ہے، نیز نکاح پڑھوانے میں نسبت اور برکت کو بھی ملحوظ رکھا جاتاہے، اس لیے کسی متبعِ شریعت صاحبِ نسبت عالم سے نکاح پڑھوانا چاہیے؛ تاکہ ان کی دعائیں اور برکات بھی حاصل ہوں۔
نیز عورتوں کے نکاح خواں ہونے میں مندرجہ ذیل قباحتیں ہیں:
بہرحال بہتر یہ ہے کہ نکاح کا خطبہ بھی عالمِ دین یا جو شخص دین دار اور مسائل نکاح سے واقف ہو اس سے پڑھایا جائے، تاہم اگر عالمہ/فاضلہ محارم کی موجودگی میں کسی محرم کا نکاح اس طور پر پڑھائے کہ کوئی غیر محرم وہاں موجود نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن عام مجمع میں آ کر یا مستقل طور پر اس کو رواج بنا لینے کی اجازت نہ ہوگی۔
الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:
"ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول....(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق.
(قوله: بعاقد رشيد وشهود عدول) فلاينبغي أن يعقد مع المرأة بلا أحد من عصبتها، و لا مع عصبة فاسق، و لا عند شهود غير عدول."
(کتاب النکاح،ج: 3/صفحہ: 8 و9، ط: ایچ، ایم، سعید)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"شرعاً پورا ختیار ہے جس کے ذریعہ دل چاہے نکاح پڑھا لیا جائے، کسی خاص نکاح خواں کی قید نہیں ہے، لہذا جو شخص دیندار اور مسائل نکاح سے واقف ہو اس سے نکاح پڑھوایا جائے۔" (ماخوذ از فتاوی محمودیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200163
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن