بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عالم یا مفتی کا سرکاری محکمہ میں خطیب لگنے کا حکم


سوال

 مدرسہ کا پڑھا ہوا طالب علم، جس نے درسِ نظامی مکمل کی ہوئی ہو یا مفتی  ہو،آرمی یا نیوی یا کسی اور سرکاری محکمہ میں خطیب لگ سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب

اگرکوئی شخص امامت وخطابت کی اہلیت رکھتاہے،تواس کےلیےآرمی ،نیوی یاکسی دوسرےسرکاری محکمہ میں خطیب بننادرست ہے،تاہم اگران محکموں میں خطابت پرکوئی اشکال ہو،تواس کوواضح کرنےکےبعدہی اس کاجواب دیاجاسکتاہے۔

الدرالمختار  میں ہے :

"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) ‌أي ‌الأكثر ‌اتقاء ‌للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات."

(كتاب الصلاة،باب الإمامة،557/1،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الأولى بالإمامة أعلمهم بأحكام الصلاة. هكذا في المضمرات وهو الظاهر. هكذا في البحر الرائق هذا إذا علم من القراءة قدر ما تقوم به سنة القراءة هكذا في التبيين ولم يطعن في دينه. كذا في الكفاية وهكذا في النهايةويجتنب الفواحش الظاهرة."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة،‌‌ الفصل الثاني في بيان من هو أحق بالإمامة،83/1،ط:ماجدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں