بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عالم دین اگر اپنے علم پر عمل نہ کرے


سوال

کوئی عالم دین برا کام کرےاور کام بھی ایسا جو اعلانیہ ہو، مثلاً جھوٹ بولے، دھوکے بازی کرے، ناحق کا ساتھ دے مظلوم کے خلاف، (سیاسی، گھریلوں، کاروباری ہر لحاظ سے) اور جب اُسے کچھ کہو تو اپنے من پسند دلائل دے، (مثلاًوہ کہتا ہے کہ آپ کسی عالم دین کو برا نہیں بول سکتے اور ساتھ یہ حدیث بھی سُناتا ہے کہ " "علماء انبیاء  کے وارث ہیں"") ،تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر بُرا نہیں کہہ سکتے تو اس آدمی کو برائی سے یا کسی بھی غلط فعل سے کیسے روکا جائے گا ؟

دوسرا سوال یہ کہ عالم بن کر کوئی اپنے  اوپر ٹھپہ لگوا لیتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے اُ س سے کوئی سوال نہیں ہوگا؟

تیسرا سوال یہ کہ وہ عالم ِ دین جو   جھوٹ بولتا ہو، باتوں کو گھما پھرا کے بیان کرتا ہو جس سے سامنے والا آدمی دھوکہ میں آجائے، ظلم کا ساتھ دیتا ہو، ماں باپ کا نا فرمان ہو، بیوی کے ساتھ برے سلوک میں ماں کا نا جائز  ساتھ دیتا ہو، سیکولر اور لبرل لوگوں  کا ساتھ دیتا ہو ، ان کی حکومت کا حامی ہو؟ تو ایسا عالم بھی انبیاء کے وارث میں شمار ہوگا؟

جواب

۱،۲۔واضح رہے کہ جھوٹ بولنا ،دھوکا دینا ،ناحق کا ساتھ دینا ،ماں باپ کی نافرمانی کرنا بیوی کے حقوق ادا نہ کرنا وغیرہ یہ سب گناہ کے کام ہیں ،چاہے عام آدمی یہ کام کرے یا کوئی عالمِ  دین،بلکہ اگر عالم دین یہ کام کرے تو اس کو عام آدمی سے زیادہ گناہ ہوگا ،اگر کسی عالم دین سے گناہ سرزد ہوجائے تو اسے فورا توبہ کرنی چاہیے ،توبہ نہ کرنا اور اپنے آپ کو عالم سمجھ کر اپنے لیے سب کچھ صحیح قرار دینا درست نہیں ہے ،ایسے عالم کو حکمت کے ساتھ سمجھانا چاہیے ۔

۳۔انبیاء کے وارث وہ علماء کرام ہوتے ہیں جو اپنے علم پر عمل بھی کرتے ہوں ،اگر کوئی عالم دین اپنے علم کے مطابق عمل  نہ کرے ،بلکہ اپنے  نفس کی خواہشات  پر عمل کرے تو وہ  انبیاء کے وارثین میں شامل نہیں ہوگا ۔

وفي التفسير المظهري:

"أتأمرون الناس بالبر: أي بالطاعة وفيه تقرير مع توبيخ وتعجيب والبر التوسع في الخير مشتق من البر وهو الفضاء الواسع يتناول كل خير. قال البغوي نزلت في علماء اليهود وذلك ان الرجل منهم كان يقول لقريبه وحليفه من المسلمين إذا ساله عن أمر محمد صلى الله عليه وسلم اثبت على دينه فان امره حق وقوله صدق. و كذا أخرج الواحدي عن ابن عباس. و قيل: هو خطاب لأحبارهم حيث أمروا اتباعهم بالتمسك بالتوراة و هم خالفوا التورية وغيروا نعت محمد صلى الله عليه وسلم فيه. وتنسون أنفسكم تتركونها من البر كالمنسيات. و أنتم تتلون الكتاب التوراة وفيها نعت محمد صلى الله عليه وسلم وصفته وفيها الوعيد على العناد ومخالفة القول العمل وترك البر أفلا تعقلون (44) قبح صنعكم أو أفلا عقل لكم يمنعكم عما تعلمون قبح عاقبته. و العقل في الأصل الحبس ومنه عقال الدابة. فان العقل يمنع الإنسان عما يضره يعنى ما تفعلون مخالف للعلم والعقل. روى البغوي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رأيت ليلة أسرى بي رجالًا تقرض شفاههم بمقاريض من نار، قلت: من هؤلاء يا جبرئيل؟ قال: هؤلاء خطباء من أمتك يأمرون الناس بالبر و ينسون أنفسهم وهم يتلون الكتاب. و روى أيضًا عن أسامة بن زيد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتابه فيدور كما يدور الحمار برحاه فيجتمع أهل النار عليه، فيقولون أي فلان ما شأنك؟ ألست كنت تأمرنا بالمعروف و تنهانا عن المنكر؟ قال: كنت آمركم بالمعروف و لا آتيه وأنهاكم عن المنكر و آتية. قال البيضاوي: المراد بالآية حث الواعظ على تزكية النفس وتكميله لا منع الفاسق عن الوعظ فان الإخلال بأحد الامرين المأمور بهما لايوجب الإخلال بالاخر. قلت: فمعنى قوله تعالى: كبر مقتا عند الله أن تقولوا ما لا تفعلون أن معصية العالم اكبر مقتًا عند الله من معصية الجاهل لا أن أمره بالمعروف ممقوت. والله اعلم."

 (1/ 63الناشر: مكتبة الرشدية - الباكستان)

وفيه أيضًا:

"مثل الذين حملوا التوراة علموها وكلفوا بالعمل بها ثم لم يحملوها أي لم يعملوا بما فيها ولم ينتفعوا بها كمثل الحمار يحمل أسفارا كتبا من العلم يتعب فى حملها ولا ينتفع بها وجملة يحمل حال من الحمار والعامل فيه معنى المثل أو صفة له إذ ليس المراد الحمار المعين نظيره و لقد أمر على اللئيم يسبنى و هكذا كل عالم لايعمل بعلمه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم إني أعوذ بك من علم لاينفع."

 (9/ 276الناشر: مكتبة الرشدية - الباكستان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308102166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں