بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عالم اور حافظ میں امامت کا حق دار کون ہے؟


سوال

مسجد کی امامت کے لیے حافظ یا عالم میں سے کون بہتر ہے؟ یعنی نماز کے علاوہ درس اور دیگر شرعی مسائل کی آگاہی اور مقتدیوں کی اصلاح کے پیشِ نظر کون بہتر ہے؟ جب کہ حافظ صاحب کئی سالوں سے امام ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نمازوں کے لیے مستقل یا عارضی طور پر امام  کے تقرر کے لیے  چند اصول وضوابط مقرر کیے گئے ہیں،  جن میں بنیادی طور  پر شرعاً امامت کا سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہے، جسے نماز کے مسائل کا سب سے زیادہ علم ہو، اوراس کے ساتھ، ساتھ وہ ظاہری اور اعلانیہ گناہوں میں بھی مبتلا نہ ہو۔ اگر کسی امام کا تقرر ہوچکا ہو اور اس کی قراءت درست ہو، اور وہ نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو تو بعد میں کسی عالم یا زیادہ اچھے قاری کے موجود ہونے سے اس کی امامت کا حق ختم نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر امام مذکور  حافظ صاحب جو کئی سالوں  سے امام ہےنماز کے ضروری مسائل کو  جانتاہو اور  دیگر معاملات میں بھی دین کے صحیح رخ کی طرف لوگوں کی راہ نمائی  کرسکتاہو تو  بلا عذر  اس امام کو معزول کرکے دوسرا امام مقرر کرنا درست نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’[مطلب لا يصح عزل صاحب وظيفة بلا جنحة أو عدم أهلية] 

[تنبيه] قال في البحر واستفيد من عدم صحة عزل الناظر بلا جنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف بغير جنحة وعدم أهلية واستدل على ذلك بمسألة غيبة المتعلم، من أنه لا تؤخذ حجرته ووظيفته على حالها إذا كانت غيبته ثلاثة أشهر، فهذا مع الغيبة فكيف مع الحضرة والمباشرة وستأتي مسألة الغيبة وحكم الاستنابة في الوظائف قبيل قول المصنف ولاية نصف القيم إلى الواقف، وفي آخر الفن الثالث من الأشباه إذا ولى السلطان مدرسا ليس بأهل لم تصح توليته؛ لأن فعله مقيد بالمصلحة خصوصا إن كان المقرر عن مدرس أهلا فإن الأهل لم ينعزل وصرح البزازي في الصلح، بأن السلطان إذا أعطى غير المستحق فقد ظلم مرتين بمنع المستحق وأعطاه غير المستحق اهـ ملخصًا.‘‘

( كتاب الوقف، مطلب في عزل الناظر، ج:4، ص:282، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (‌الأعلم ‌بأحكام ‌الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات ....(قوله تقديما) أي على من حضر معه (قوله بل نصبا) أي للإمام الراتب (قوله بأحكام الصلاة فقط) أي وإن كان غير متبحر في بقية العلوم، وهو أولى من المتبحر، كذا في زاد الفقير عن شرح الإرشاد (قوله بشرط اجتنابه إلخ) كذا في الدراية عن المجتبى. وعبارة الكافي وغيره: الأعلم بالسنة أولى، إلا أن يطعن عليه في دينه لأن الناس لا يرغبون في الاقتداء به...(قوله أي الأكثر اتقاء للشبهات) الشبهة: ما اشتبه حله وحرمته، ويلزم من الورع التقوى بلا عكس. والزهد: ترك شيء من الحلال خوف الوقوع في الشبهة، فهو أخص من الورع، وليس في السنة ذكر الورع، بل الهجرة عن الوطن. فلما نسخت أريد بها هجرة المعاصي بالورع، فلا تجب هجرة إلا على من أسلم في دار الحرب، كما في المعراج ط."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:557، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الأولى بالإمامة أعلمهم بأحكام الصلاة. هكذا في المضمرات وهو الظاهر. هكذا في البحر الرائق هذا إذا علم من القراءة قدر ما تقوم به سنة القراءة هكذا في التبيين ولم يطعن في دينه. كذا في الكفاية وهكذا في النهايةويجتنب الفواحش الظاهرة."

( باب في الإمامة،‌‌الفصل الثاني في بيان من هو أحق بالإمامة،ج:1،ص:83،ط:دار الفکر بیروت )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں