بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آلات پر زکات کا حکم


سوال

میرے بڑے بیٹے کو کسی نے ایک سال پہلے کمپیوٹر دلایا تھا،اور اس میں گرافک کارڈ وغیرہ کے ساتھ اسکی مالیت تقریباً ایک لاکھ ہوگئی ہے، تو کیا ہم پر زکوٰۃ واجب  ہوگی؟ کیونکہ ہماری مالی حالت ایسی نہیں کہ ہم ایکسٹرا اماونٹ نکال سکیں، اور کیا ہم زکات لینے کے حقدار ہونگے؟  مجھے یہ بات بہت پریشان کررہی ہے، کیونکہ مجھے لوگ زکوٰۃ کی رقم بھیجتے ہیں۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپیوٹر کی  مالیت میں  زکات واجب نہیں ہوگی، البتہ  اگر کمپیوٹر  سےکچھ آمدنی  حاصل ہورہی ہے،  اگر وہ کمائی  نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو جائے، یا ان کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب ہو، توجو رقم خرچ کے بعد  باقی بچے گی، اس رقم کو دیگر اموال کے ساتھ ملاکر  سالانہ زکات واجب  ہوگی ۔

جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو،  اور وہ سید یاعباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ لینا جائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لاتجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة تبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها أو يبيعها فأمسكها حولاً لاتجب فيه الزكاة، كذا في فتاوى قاضي خان. ولو أن نخاسًا يشتري دواب أو يبيعها فاشترى جلاجل أو مقاود أو براقع فإن كان بيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت هذه لحفظ الدواب بها فلا زكاة فيها كذا في الذخيرة. وكذلك العطار لو اشترى القوارير، ولو اشترى جوالق ليؤاجرها من الناس فلا زكاة فيها؛ لأنه اشتراها للغلة لا للمبايعة، كذا في محيط السرخسي. والخباز إذا اشترى حطبًا أو ملحًا لأجل الخبز فلا زكاة فيه."

(كتاب الزكاة وفيه ثمانية أبواب،مسائل شتى في الزكاة، ج:1 ص:180 ط:رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية ؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية."

(كتاب الزكاة، فصل الشرائط التي ترجع إلى المال،ج:2 ص:11 ط: دار الكتب العلمية)

 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں