بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عالم قدیم ہے یا حادث؟


سوال

کیا عالم امر قدیم اور غیر مخلوق ہے یا حادث و مخلوق؟

جواب

واضح رہے کہ شرعا قدیم اس ذات کو کہا جاتا ہے، جو اپنے وجود میں کسی کی محتاج نہ ہو، اور   نہ اس  ذات پر کبھی کوئی ایسا وقت  گزرا ہو کہ جس زمانہ میں اس ذات  کا کوئی وجود ہی نہ ہو، نیز قدیم وہ ذات ہے جو کبھی فنا نہ ہوتی ہو،  جب کہ حادث اس ذات کو کہا جاتا ہے، جو اپنے وجود میں غیر کی محتاج ہو، اور جس کا وجود پہلے نہ ہو، پھر وجود میں آئے، اور بعد میں پھر فنا ہوجائے۔

التعریفات للجرجاني میں ہے:

" القديم: يطلق على الموجود الذي لا يكون وجوده من غيره، وهو القديم بالذات، ويطلق القديم على الموجود الذي ليس وجوده مسبوقًا بالعدم، وهو القديم بالزمان، والقديم بالذات يقابله المحدث بالذات؛ وهو الذي يكون وجوده من غيره، كما أن القديم بالزمان يقابله المحدث بالزمان؛ وهو الذي سبق عدمُه وجودَه سبقًا زمانيًا، وكل قديم بالذات قديم بالزمان، وليس كل قديم بالزمان قديمًا بالذات، فالقديم بالذات أخص من القديم بالزمان، فيكون الحادث بالذات أعم من الحادث بالزمان؛ لأن مقابل الأخص أعم من مقابل الأعم، ونقيض الأعم من شيء مطلق أخص من نقيض الأخص. وقيل: القديم ما لا ابتداء لوجوده الحادث، والمحدث: ما لم يكن كذلك، فكأن الموجود هو الكائن الثابت، والمعدوم ضده. وقيل: القديم هو الذي لا أول ولا آخر له. "

( باب القاف، ص: 172، ط: دار الكتب العلمية بيروت -لبنان)

لہذا قدیم اور خالق ذات باری تعالی کی ذات ہے،   اور  تمام اکوانِ عالم خالق کائنات کی مخلوق ، اور  حادث  ہیں، جن کے مخلوق اور  حادث اور فنا  ہونے پر قرآن مجید کی متعدد آیات و احادیث  دلالت کرتی ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:

" إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ"( الأعراف: 54)

ترجمہ:’’ یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے  جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے رام ہیں۔ یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

" إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (٣)  إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (٤) هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (٥)  إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَّقُونَ(٦)"

( يونس: 3 - 6)

ترجمہ:’’ حقیقت یہ ہے  کہ تمہارا پروردگار اللہ ہے جس نے سارے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر اس نے عرش پر اس طرح استواء فرمایا کہ وہ ہر چیز کا انتظام کرتا ہے۔ کوئی اس کی اجازت کے بغیر (اس کے سامنے) کسی کی سفارش کرنے والا نہیں، وہی اللہ ہے تمہارا پروردگار، لہذا اس کی عبادت کرو، کیا تم پھر بھی دھیان نہیں دیتے؟ اسی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، یقینا ساری مخلوق کو شروع میں بھی وہی پیدا کرتا ہے اور دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے  نیک عمل کیے ہیں ان کو انصاف کے ساتھ اس کا صلہ دے۔ اور جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے، انکے لیے کھولتے ہوئے پانی کا مشروب ہے، اور دکھ دینے والا عذاب ہے، کیونکہ وہ حق کا انکار کرتے تھے۔ اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا، اور چاند کو سراپا نور، اور اس کے (سفر) کے لیے منزلیں مقرر کردیں، تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بغیر کسی صحیح مقصد کے پیدا نہیں کردیا وہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رات دن کے آگے پیچھے آنے میں اور اللہ نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے،  اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہو۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ" (هود : 7)

ترجمہ:’’اور وہی ہے  جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تمہیں آزمائے کہ عمل کے اعتبار سے تم میں کون زیادہ اچھا ہے۔   اور اگر تم (لوگوں سے) یہ کہو کہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو جن لوگوں نے کفر  اپنا لیا ہے، وہ یہ کہیں گے کہ یہ کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا "(الفرقان: 59)

ترجمہ:’’ وہ ذات جس نے چھ دن میں سات آسمان اور زمین، اور ان کے درمیان کی چیزیں پیدا کیں، پھر وہ  عرش پر  قائم ہوا،   وہ رحمن ہے، اس لیے اس کی شان کسی  جاننے والے سے پوچھو۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

" اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ"   (السجدة: 4)

ترجمہ:’’ اللہ  وہ ہے جس نے  بنایا ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں ، پھر  وہ عرش پر قائم ہوا،  اس کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی ہے، اور نہ سفارشی،  پھر تم کیوں دھیان نہیں کرتے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ" (الأنبياء:33)

ترجمہ: ’’ اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے،  سب  اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ" ( الزمر: 62)

ترجمہ:’’ اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہی ہر چیز کا رکھ والا ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

" قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (٩) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (١٠) ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١١) فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (١٢)(فصلت: ٩ - ١٢)

ترجمہ:’’  کہدو کہ : کیا تم واقعی اس ذات کا انکار کرتے ہو، جس نے دو یوم ( کی مقدار ) میں زمین کو بنایا؟  اور  تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے  ہو،وہ ذات تو سارے جہانوں کی پرورش کرنے والی ہے۔اور اس نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ پیدا کیے، جو اس کے اوپر ابھرے ہوئے ہیں، اور اس میں برکت ڈال دی، اور اس میں توازن کے ساتھ اس کی غذائیں پیدا کیں،   یہ سب کچھ چار دن میں  ہوا، طلب کرنے والوں کے لیے برابر ہے۔پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، جبکہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا، پھر اس سے اور زمین سے کہا: چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی ، دونوں نے کہا کہ ہم خوشی خوشی آتے ہیں۔چنانچہ اس نے  دو دن میں اپنے فیصلہ کے تحت ان کے سات آسمان بنادیئے، اور ہر آسمان میں اس کے مناسب حکم صادر کردیا، اور ہم نے اس قریب والے آسمان ( آسمان دنیا) کو  چراغوں سے سجایا، اور اسے خوب محفوظ کردیا، یہ اس ذات کی نپی تلی  منصوبہ بندی ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کا علم بھی مکمل ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"هو الذي خلق السموتِوَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ "(الحديد: ٤)

ترجمہ: ’’ وہی ہے  جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر استوا فرمایا، وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور ہر اس چیز کو جو آسمان سے اترتی  ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور تم جہاں کہیں ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا "( الطلاق: 12)

ترجمہ: ’’ اللہ وہ ہے  جس نے سات آسمان پیدا کیے، اور زمین بھی انہی کی طرح اللہ کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے، تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ اللہ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔‘‘ 

صحیح البخاری میں ہے:

٧٤١٨ - "حدثنا ‌عبدان، عن ‌أبي حمزة، عن ‌الأعمش، عن ‌جامع بن شداد، عن ‌صفوان بن محرز، عن ‌عمران بن حصين قال: «إني عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه قوم من بني تميم، فقال: اقبلوا البشرى يا بني تميم. قالوا: بشرتنا فأعطنا، فدخل ناس من أهل اليمن، فقال: اقبلوا البشرى يا أهل اليمن، إذ لم يقبلها بنو تميم قالوا: قبلنا، جئناك لنتفقه في الدين، ولنسألك عن أول هذا الأمر ما كان، قال: كان الله ولم يكن شيء قبله، وكان عرشه على الماء، ثم خلق السموات والأرض، وكتب في الذكر كل شيء ثم أتاني رجل فقال: يا عمران أدرك ناقتك فقد ذهبت، فانطلقت أطلبها، فإذا السراب ينقطع دونها، وايم الله لوددت أنها قد ذهبت ولم أقم.» "

( كتاب التوحيد، باب {وكان عرشه على الماء}، ٩ / ١٢٤، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق)

ترجمہ:’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو تمیم! بشارت قبول کرو۔ انہوں نے اس پر کہا کہ آپ نے ہمیں بشارت دے دی، اب ہمیں بخشش بھی دیجئیے۔ پھر آپ کے پاس یمن کے کچھ لوگ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اہل یمن! بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی تم اسے قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قبول کر لی۔ ہم آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور تاکہ آپ سے اس دنیا کی ابتداء کے متعلق پوچھیں کہ کس طرح تھی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تھا اور کوئی چیز نہیں تھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ پھر اس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی (عمران بیان کرتے ہیں کہ) مجھے ایک شخص نے آ کر خبر دی کہ عمران اپنی اونٹنی کی خبر لو وہ بھاگ گئی ہے۔ چنانچہ میں اس کی تلاش میں نکلا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اور اس کے درمیان ریت کا چٹیل میدان حائل ہے اور اللہ کی قسم میری تمنا تھی کہ وہ چلی ہی گئی ہوتی،  اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سے نہ  اٹھا ہوتا۔‘‘

تفسیر قرطبی میں ہے:

"(وكان عرشه على الماء) بين أن خلق العرش والماء قبل خلق الأرض والسماء. قال كعب: خلق الله ياقوتة خضراء فنظر إليها بالهيبة فصارت ماء يرتعد من مخافة الله تعالى، فلذلك يرتعد الماء إلى الآن وإن كان ساكنا، ثم خلق الريح فجعل الماء على متنها، ثم وضع العرش على الماء. وقال سعيد بن جبير عن ابن عباس: أنه سئل عن قوله عز وجل:" وكان عرشه على الماء" فقال: على أي شي كان الماء؟ قال: على متن الريح.

(سورة هود: ٧، ٩ / ٨، ط: دار الكتب المصرية - القاهرة)

ترجمہ:’’ اللہ کا عرش پانی پر تھا، اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ عرش اور پانی کی تخلیق  زمین و آسمان بنانے  سے پہلے فرمائی ہے۔حضرت کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ : اللہ رب العزت نے سبز یاقوت  بنایا، پھر اس پر ہیبت کی نگاہ ڈالی، پھر وہ اللہ کے خوف  سے  ہلتا جلتا پانی بن گیا،  اسی وجہ سے پانی آج تک ہلتا جلتا رہتا ہے، اگرچہ وہ ساکن ہو، پھر  ہوا بنائی،  پھر پانی کو اس پر رکھ دیا، پھر عرش  اس پانی پر  رکھ دیا۔حضرت سعید بن جبیر  رحمہ اللہ  سے منقول ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے   اللہ کے فرمان " وكان عرشه على الماء" کے  بارے میں دریافت کیا گیا  کہ پانی   کس چیز پر  تھا؟ تو انہوں نے  جوابا فرمایا  کہ ہوا کی سطح پر تھا۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ " (القصص: ٨٨)

ترجمہ:’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکارو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔  ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اس ذات کے، حکومت اسی کی ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا۔‘‘

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله: كل شيء هالك إلا وجهه إخبار بأنه الدائم الباقي الحي القيوم، الذي تموت الخلائق ولا يموت." 

( القصص: ٦ / ٢٣٥، ط: دار الكتب العلمية)

ارشاد باری تعالی ہے:

" كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (٢٦) وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (٢٧)"( الرحمن: ٢٦ - ٢٧)

ترجمہ:’’ اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔  اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی، فضل و کرم والی ذات باقی رہے گی۔‘‘

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"يخبر تعالى أن جميع أهل الأرض سيذهبون ويموتون أجمعون، وكذلك أهل السماوات إلا من شاء الله ولا يبقى أحد سوى وجهه الكريم، فإن الرب تعالى وتقدس لا يموت بل هو الحي الذي لا يموت أبدا، قال قتادة: أنبأ بما خلق ثم أنبأ أن ذلك كله فان."

( الرحمن، ٧ / ٤٥٦، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں