بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آخرت کے منکر شوہر کا حکم


سوال

میرا نکاح 2015 میں پاکستانی نژاد امریکی سنی سید خاندان کےشخص سے ہوا، اور چند ماہ بعد رخصت ہوکر امریکا چلی گئی۔ چند دنوں بعد شوہر کے بارے میرے علم میں دینی نقطہ نظر سے انتہائی تکلیف دہ باتیں سامنے آنے لگیں۔ کثرت شراب نوشی کرنا۔حرام ذبیحہ گھر میں لانا اوراس کے استعمال کو جائز سمجھنا۔ (میرےاس حرام ذبیحہ نا کھانے پر میرے لیے حلال ذبیحہ لاتے رہے۔) نماز روزےاور دیگر ضروریاتِ دین کو کبھی ادا ناکرنا، بلکہ میرے روزہ رکھنے کامذاق اڑانا اور کہنا کہ جب مرضی روزہ کھول لو، یہ اہتمام مولویوں کا بنایا ہواہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات تب سامنے آئی جب اپنے ہوش و حواس کے ساتھ  مجھے اور مختلف محافل میں ترغیبانہ انداز میں اپنے آپ کو ایتھیسٹ ( لادین و ملحد) کہنا اور دینی اعمال و اقدار کا مذاق اڑانا اور ضروریاتِ دین کو مولویوں کی بنائی ہوئی باتیں ثابت کرنے کی کوشش کرنا، مرنے کے بعد حساب و کتاب کا انکار کرنا اورشراب کے نشے میں یہاں تک میرے گناہ گار کانوں نے اس سےسناکہ حضور ﷺ  نعوذبالله نعوذبالله(نقل کفر کفر نہ باشد) چھوٹے بچوں کے جنسی رسیا تھے اور اسی لیے چھوٹی عمر  کی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کیا۔  میرے  لیے یہ چیزیں ناقابلِ برداشت ہوتی گئیں،  میں اس کا اقرار کرتی ہوں کہ اپنی ایمانی کم زوری اور پردیس میں ہونے کی وجہ سے میں اس کے سامنے زبان نہیں کھول پاتی تھی۔اور 2019 میں جب اس بارے گفتگو کی اور طلاق کا مطالبہ کیا تو اولاً دھمکیاں دیں مختلف قسم کی اور محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے ایسی باتوں کو  بہت حد تک کم کردیا ناہونے کے برابر۔ اور جب میرا طلاق کا مطالبہ بڑھا تو کلمہ پڑھ کر کہتا کہ میں مسلمان اور سید ہوں، بس میرا روایتی اسلام سے کوئی تعلق نہیں، میں نے بہت مطالعہ کیا ہواہے۔ میں نے سابقہ نشےاور نشے کے بغیر کی ہوئی باتوں پر توبہ کا مطالبہ کیا تو سرے سے انکار کردیا کہ اولاً تو میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور ثانیاً  وہ میرا اور  اللہ کا معاملہ ہےتم کون ہوتی ہو مجھےغیر مسلم ثابت کرنے والی؟ اور اگر تم نے مجھے چھوڑا تو میں اور زیادہ ایسی باتوں میں پڑوں گا اور اس کا وبال بھی تم پر آئے گا۔ میں اپنی تمام تر نا لائقیوں کے باوجود بظاہر اپنی دنیا خراب کرکے جو ایک طلاق یافتہ خاتون اور پردیس میں رہ کر اپنی آخرت خراب نہیں کرنا چاہتی، اسی لیے طلاق لینےکا فیصلہ کیاہے، لیکن اب تشویش میں مبتلا ہوں کہ کہیں واقعۃً  قیامت میں مجھ پر وبال نا پڑے اس کے اسی خیالات پر خاتمے پر؟ وہ روایتی اسلام کے خلاف ہے اور رہے گا، لیکن میری وجہ سے اس انسان نے کم از کم ہذیان اور غلط باتیں کہنا چھوڑ دیا ہے. اب خود کو ایتھیسٹ نہیں، مسلمان کہتا ہے. اب کلمہ پڑھتا ہے. اگر میری وجہ سے یہ تبدیلی آئی ہے، تو شاید اللہ مجھ سے خوش ہو جائے. اور اگر میں نے اسے چھوڑ دیا تو کہیں یہ مزید نہ بھٹک جائے. سو کیا اس کے کلمہ پڑھنے کی بنیاد پر، اور پچھلی باتوں پر توبہ کیے بغیر، اس کو سدھرنے کا موقع دیا جائے؟ (یہ جانتے ہوئے کہ روایتی اسلام پر وہ کبھی عمل پیرا نہیں ہو گا، لیکن ہاں غلط گفتگو سے ہمیشہ گریز کرے گا) لیکن اس کو یہ موقع دینے کے لیے، ظاہر میں اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چاہتی. نیز اب اس کے کلمہ پڑھنے اور تدریجاً اپنے آپ کو ایسے خیالات کا اظہار پبلک نا کرنے کا وعدہ کرتاہے اور شراب نوشی ختم تو نہیں، لیکن کم کرنے کا وعدہ کرتاہے، لیکن سابقہ باتوں پر توبہ نہیں کرتا تو میرے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا حکم ہے تاکہ میری آخرت خراب نا ہو؟  اور بقول اس کے طلاق لینے کی صورت میں میری وجہ سے اس کی آخرت خراب ہونے کا وبال بھی مجھ پر تو نہیں ہوگا؟ 

جواب

بصدقِ  واقعہ مذکورہ شخص آخرت، حساب کتاب کے انکار، و ضروریات دین کا مذاق اڑانے اور رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا، اور نکاح بھی ختم ہوگیا ہے، لہذا مذکورہ خاتون کو مذکورہ شخص سے فوری علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔

تاہم اگر مذکورہ شخص سب باتوں سے انکار کرتا ہو، اور مذکورہ خاتون کے پاس گواہ موجود ہوں تو ایسی صورت میں گواہوں کی گواہی کی وجہ سے خاتون کی بات شرعاً معتبر ہوگی، پس اگر گواہ نہ ہوں، شوہر کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہو، تو ایسی صورت میں مذکورہ خاتون کو اس سے طلاق یا خلع  لے کر الگ ہوجانا چاہیے۔

اگر وہ شخص سابقہ باتوں اور نظریات سے توبہ کرکے براءت کا اعلان نہیں کرتا تو صرف زبانی کلمہ پڑھ لینے اور سائلہ کے سامنے مذکورہ ہذیانات کم کرنے سے وہ اسلام میں داخل نہیں ہوگا، البتہ اگر وہ اپنے باطل نظریات سے سچی توبہ کرنے کے ساتھ ان سے براءت بھی کرتاہے اور پھر تجدیدِ ایمان کے ساتھ شرعی شرائط کے ساتھ تجدیدِ نکاح بھی کرتا ہے تو سائلہ کے لیے اس کے ساتھ رہنا جائز ہوگا۔ جب تک وہ ایسا نہ کرے، سائلہ اس سے علیحدہ ہوجائے، اگر وہ ردِ عمل کے طور پر کچھ کرتاہے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا، سائلہ اس کے اعمال و نظریات کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔

 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وَمِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَا فِيهَا) مَنْ أَنْكَرَ الْقِيَامَةَ، أَوْ الْجَنَّةَ، أَوْ النَّارَ، أَوْ الْمِيزَانَ، أَوْ الصِّرَاطَ، أَوْ الصَّحَائِفَ الْمَكْتُوبَةَ فِيهَا أَعْمَالُ الْعِبَادِ يَكْفُرُ، وَلَوْ أَنْكَرَ الْبَعْثَ فَكَذَلِكَ، وَلَوْ أَنْكَرَ بَعْثَ رَجُلٍ بِعَيْنِهِ لَا يَكْفُرُ كَذَا ذَكَرَ الشَّيْخُ الْإِمَامُ الزَّاهِدُ أَبُو إِسْحَاقَ الْكَلَابَاذِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ". ( كتاب السير، الباب السابع في احكام المرتدين، مطلب فِي مُوجِبَاتُ الْكُفْرِ أَنْوَاعٌ مِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِالْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ، ٢ / ٢٧٤، ط: دار الفكر)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(شَهِدُوا عَلَى مُسْلِمٍ بِالرِّدَّةِ وَهُوَ مُنْكِرٌ لَا يَتَعَرَّضُ لَهُ) لَا لِتَكْذِيبِ الشُّهُودِ الْعُدُولِ بَلْ (لِأَنَّ إنْكَارَهُ تَوْبَةٌ وَرُجُوعٌ) يَعْنِي فَيُمْتَنَعُ الْقَتْلُ فَقَطْ. وَتَثْبُتُ بَقِيَّةُ أَحْكَامِ الْمُرْتَدِّ كَحَبْطِ عَمَلٍ وَبُطْلَانِ وَقْفٍ وَبَيْنُونَةِ زَوْجَةٍ لَوْ فِيمَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَإِلَّا قُتِلَ كَالرِّدَّةِ بِسَبِّهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ كَمَا مَرَّ أَشْبَاهٌ".

رد المحتار میں ہے:

"(قَوْلُهُ: لِأَنَّ إنْكَارَهُ تَوْبَةٌ وَرُجُوعٌ) ظَاهِرُهُ وَلَوْ بِدُونِ إقْرَارٍ بِالشَّهَادَتَيْنِ، وَهُوَ ظَاهِرُ قَوْلِ الْمُتُونِ أَوَّلَ الْبَابِ، وَإِسْلَامُهُ أَنْ يَتَبَرَّأَ عَنْ الْأَدْيَانِ حَيْثُ لَمْ يَذْكُرُوا الْإِقْرَارَ بِالشَّهَادَتَيْنِ. وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ الْإِنْكَارَ مَعَ الْإِقْرَارِ بِهِمَا، وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي كَافِي الْحَاكِمِ، وَإِذَا رُفِعَتْ الْمُرْتَدَّةُ إلَى الْإِمَامِ فَقَالَتْ مَا ارْتَدَدْت وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ كَانَ هَذَا تَوْبَةً مِنْهَا تَأَمَّلْ. ثُمَّ رَأَيْت فِي الْبِيرِيِّ عَلَى الْأَشْبَاهِ قَالَ: كَوْنُ مُجَرَّدِ الْإِنْكَارِ تَوْبَةً غَيْرُ مُرَادٍ بَلْ ذَلِكَ مُقَيَّدٌ بِثَلَاثَةِ قُيُودٍ. قَالَ فِي الذَّخِيرَةِ عَنْ بِشْرِ بْنِ الْوَلِيدِ: إذَا جَحَدَ الْمُرْتَدُّ الرِّدَّةَ وَأَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَبِمَعْرِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَبِدِينِ الْإِسْلَامِ فَهَذَا مِنْهُ تَوْبَةٌ اهـ (قَوْلُهُ: كَحَبْطِ عَمَلٍ) يَأْتِي الْكَلَامُ عَلَيْهِ (قَوْلُهُ: وَبُطْلَانِ وَقْفٍ) أَيْ الَّذِي وَقَفَهُ حَالَ إسْلَامِهِ سَوَاءٌ كَانَ عَلَى قُرْبَةٍ ابْتِدَاءً أَوْ عَلَى ذُرِّيَّتِهِ ثُمَّ عَلَى الْمَسَاكِينِ لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ وَلَا بَقَاءَ لَهَا مَعَ وُجُودِ الرِّدَّةِ، وَإِذَا عَادَ مُسْلِمًا لَا يَعُودُ وَقْفُهُ إلَّا بِتَجْدِيدٍ مِنْهُ، وَإِذَا مَاتَ أَوْ قُتِلَ أَوْ لَحِقَ كَانَ الْوَقْفُ مِيرَاثًا بَيْنَ وَرَثَتِهِ بَحْرٌ عَنْ الْخَصَّافِ.

(قَوْلُهُ: وَبَيْنُونَةِ زَوْجَةٍ) وَتَكُونُ فَسْخًا عِنْدَهُمَا. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: فُرْقَةٌ بِطَلَاقٍ". ( بَابُ الْمُرْتَدِّ، ٤ / ٢٤٦، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ : لَا يُفْتَى بِكُفْرِ مُسْلِمٍ أَمْكَنَ حَمْلُ كَلَامِهِ عَلَى مَحْمَلٍ حَسَنٍ) ظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَا يُفْتَى بِهِ مِنْ حَيْثُ اسْتِحْقَاقُهُ لِلْقَتْلِ وَلَا مِنْ حَيْثُ الْحُكْمُ بِبَيْنُونَةِ زَوْجَتِهِ. وَقَدْ يُقَالُ: الْمُرَادُ الْأَوَّلُ فَقَطْ، لِأَنَّ تَأْوِيلَ كَلَامِهِ لِلتَّبَاعُدِ عَنْ قَتْلِ الْمُسْلِمِ بِأَنْ يَكُونَ قَصَدَ ذَلِكَ التَّأْوِيلَ، وَهَذَا لَا يُنَافِي مُعَامَلَتَهُ بِظَاهِرِ كَلَامِهِ فِيمَا هُوَ حَقُّ الْعَبْدِ وَهُوَ طَلَاقُ الزَّوْجَةِ وَمِلْكُهَا لِنَفْسِهَا، بِدَلِيلِ مَا صَرَّحُوا بِهِ مِنْ أَنَّهُمْ إذَا أَرَادَ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ مُبَاحَةٍ فَجَرَى عَلَى لِسَانِهِ كَلِمَةُ الْكُفْرِ خَطَأً بِلَا قَصْدٍ لَا يُصَدِّقُهُ الْقَاضِي وَإِنْ كَانَ لَا يَكْفُرُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ تَعَالَى، فَتَأَمَّلْ ذَلِكَ وَحَرِّرْهُ نَقْلًا فَإِنِّي لَمْ أَرَ التَّصْرِيحَ بِهِ، نَعَمْ سَيَذْكُرُ الشَّارِحُ أَنَّ مَا يَكُونُ كُفْرًا اتِّفَاقًا يُبْطِلُ الْعَمَلَ وَالنِّكَاحَ، وَمَا فِيهِ خِلَافٌ يُؤْمَرُ بِالِاسْتِغْفَارِ وَالتَّوْبَةِ وَتَجْدِيدِ النِّكَاحِ وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ أَمْرٌ احْتِيَاطٌ". (بَابُ الْمُرْتَدِّ، ٤ / ٢٢٩ - ٢٣٠، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں