بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آخرت،جنت،جہنم کا انکار کرنے والے کے ایمان اور نکاح کا حکم


سوال

میں نادرن آئیر لینڈ  میں رہائش پذیر ہوں،میرے شوہر کہتے ہیں کہ حلال شاپ سے چکن گوشت کیوں  لیتی ہو؟ عام شاپ سے کیوں نہیں لیتیں ؟اس لیے کہ حلال شاپ پر حلال گوشت ملتا ہے؟ کٹے ہوئے تو سب ایک طریقہ  سے ہی ہیں ،ایک بسم اللہ پڑھنے سے کیا حلال حرام ہو جائے گا ؟ میں نہیں مانتا اس کو۔۔اور وہ بغیر بسم اللہ والا ذبیحہ یعنی بیف اور چکن کھاتے ہیں ۔۔۔

کیا ان کا یہ عقیدہ ہمارے نکاح پر اثر انداز ہوتا ہے؟

یا پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ پردہ کیوں کرتی ہو؟ کیا یہ منہ پر ڈالا ہے،ایک ماسک پہن لو کافی ہے،یا  پھر  اگر مجھے مدرسہ جاتے دیکھیں یا کوئی مدرسہ کی کلاس لیتے ہوئے تو کہتے ہیں کہ اس مدرسہ اور دین میں تم سے زیادہ میں رہ چکا ہوں ،ان میں کچھ نہیں ہے،بس مولویوں  کی باتیں ہیں  اور پاگل بناتے ہیں لوگوں کو یہ مولوی،اب تم ہی بتاؤ کہ تم نے کبھی دیکھی آخرت، جنت،جہنم؟ نہیں نہ ؟ تو کیسے مانتی ہوان کو؟میں  نہیں مانتا اس دین، مذہب کو ،بس اتنا مانتا ہوں کہ ایک خدا ہےاللہ اور اس کا رسول ہے، لیکن اس کے بعد کی جو باتیں  ہم تک پہنچی ہیں ،نہ جانے  کتنی سچ کتنی غلط ہیں ،اس لیے میں تو ان سب کو نہیں مانتا،قرآن کے تیس پارے مانتی ہو نہ تم؟،وہ جو اسماء الرجال ،احادیث،دلائل سب تمہارے پاس ہیں نہ؟ وہی سب چالیس پاروں و الوں کے پاس بھی ہیں ،کیسے مانتی ہو کہ یہ تیس ہی درست ہیں ؟خود واضح اس کا انکار نہیں کیا،مجھ سے یہ باتیں کی ہیں،جب ایک دن میں نے پوچھا کیا واقعتاً آپ آخرت کو نہیں مانتے؟ تو  کہا کہ کس نے کہا ؟ میں نے تم سے پوچھا کہ کیسے مانتی ہو؟ورنہ تو مولوی مجھے کافر کردیں ،ایمانِ مفصل نہیں پڑھا کیا؟

ایسے مختلف مواقع پر کہنا میں مذہب وغیرہ کو نہیں مانتا ،تم ہی  ہو مذہبی  ،میں  نہیں مانتا اس دین کو۔

تو سوال میرا یہ ہے کہ میرے شوہر اور میں دونوں عالم ہیں اور میرے شوہر حافظ بھی ہیں،لیکن ان کا دین ان کی پڑھائی کے زمانے میں پھر بھی  تھوڑا بہت تھا، فارغ ہونے کے بعد بالکل ہی دین چھوڑ دیا ،شلوار قمیص،صوم و صلاۃ سب  چھوڑدیاہے، شراب نوشی بھی کرتے ہیں بہت، اور مجھے بھی دینی تعلیم کے ساتھ واسطہ پر اور دینی واسطہ پر کہتے ہیں  کہ میں نے اس مذہب میں جاکر دیکھ لیا ہے،تم سے زیادہ گہرائی میں جاکر دیکھا ہے،کچھ بھی نہیں ہےاس میں ، کچھ بھی نہیں رکھا اس میں ، افسوس تو تم پر ہے کب سمجھوگی تم ؟تو کیا یہ تمام باتیں کفریہ کلمات سے تعلق رکھتی ہیں ؟ اگر سیریئس ہو کر کہی ہیں تو کیا حکم ہے،مذاقاً کیا حکم ہے؟

ہمارے نکاح پر اس کا کوئی اثر ہوا ہے؟ اگر نکاح پر اثر اہو ا ہے تو نکاح کا ٹوٹ جانا کون سی جدائی کا حکم لگائے گا بائن یا کوئی اور؟

جواب

1) واضح رہے کہ اپنے ارادےواختیارسےکلماتِ کفریہ ادا کرنے سے انسان دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، خواہ وہ کلمات مذاق میں ہی  کہے ہوں، یا ان کے مطابق عقیدہ نہ ہو، لیکن کلماتِ کفر یہ ہوں۔

لہذا صورتِ مسؤلہ میں اگر واقعۃً سائلہ کے شوہر نے قیامت،جنت ،جہنم،قرآن شریف کے بارے میں اس طرح کہا ہے کہ:" تم کیسے مانتی ہو ان کو ،میں نہیں مانتا اس مذہب کو"  اسی طرح قرآن کے بارے میں یہ کہنا کہ :"تم کیسے مانتی ہو کہ یہ تیس پارے ہی درست ہیں"  ،تو  ان سب باتوں  کی وجہ سے سائلہ کا شوہر ضروریاتِ دین کا انکار کرنے کی وجہ سے دائرۂ اسلام  سے خارج  ہو گیا ہے اور نکاح  بھی ختم ہو گیا ہے ،لہذا سائلہ کو اپنے شوہر سے فوری علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔

البتہ اگر وہ اپنے باطل نظریات سے سچی توبہ کرنے کے ساتھ ان سے براءت بھی کرتاہے اور پھر تجدیدِ ایمان کے ساتھ شرعی شرائط کے ساتھ تجدیدِ نکاح بھی کرتا ہے تو سائلہ کے لیے اس کے ساتھ رہنا جائز ہوگا، جب تک وہ ایسا نہ کرے، سائلہ اس سے علیحدہ رہے۔

2) واضح رہے کہ ارتداد طلاق نہیں ،بلکہ فسخِ نکاح ہے ،لہذاسائلہ کے شوہر کے ارتداد کی وجہ سے سائلہ کا نکاح  بغیر طلاق کے فسخ ہو گیا ہے  ، فسخ کی صورت میں سائلہ پر عدت واجب ہے ،اگر سائلہ کا شوہر مذکورہ باتوں سے توبہ کر کے براءت کا اعلان نہیں  کرتا تو سائلہ اپنی عدت گزار کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها ما يتعلق بيوم القيامة وما فيها) من أنكر القيامة، أو الجنة، أو النار، أو الميزان، أو الصراط، أو الصحائف المكتوبة فيها أعمال العباد يكفر، ولو أنكر البعث فكذلك"۔

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، ج:2، ص:274، ط: رشیدیه)

الدر المختار میں ہے:

"وفي الفتحمن هزل بلفظ كفرارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد".

(کتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، ص:222، ط:سعید)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع….قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف اهـ"۔

 (کتاب الجہاد،باب المرتد،ج:4،ص:224،ط:سعید)

الدرا لمختارمع رد المحتار میں ہے:

"(وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلا ينقص عددا (عاجل) بلا قضاء"۔

(کتاب النکاح،باب نکاح الکافر،ج:3،ص:193،194،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں