بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آج سے تیرا میرا تعلق ختم کہنے کا حکم


سوال

میرے اور میرے شوہر کے مابین ایک مرتبہ گھر کے اخراجات اور بچوں کی فیس کے بارے میں بات چل رہی تھی، اس پر وہ بولے کہ اپنے گھر سے اخراجات پورے کرلو، میں نے ان کی بات نہیں مانی ، کھانا اٹھاکر اس نے پھینک دیا اور کہا :"آج سے تیرا میرا تعلق ختم"، یہ الفاظ انہوں نے تین چار مرتبہ بولے ، اس پر میں نے ان کو متنبہ کیا کہ سوچ کر بولو، کہنے لگے :"ہاں ہاں تیرا میرا تعلق ختم "، طلاق نامہ اپنے بھائی سے بنوالینا، یہ کہہ کر سارا سامان اٹھاکر چلے گئے اور کوئی رابطہ نہیں۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا جملوں سے طلاق ہوئی ہے یا نہیں ؟اگر ہوئی ہے تو کتنی ؟ طلاق ہونے کی صورت میں عدت کا طریقہ بھی بتادیں۔                       

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے انہیں لڑائی جھگڑے میں کئی بار یہ الفاظ کہے ہیں کہ :"آج سے تیرا میرا تعلق ختم " اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ طلاق نامہ اپنے بھائی سے بنوالینا،اگر یہ الفاظ طلاق اور جدائی کی نیت سے کہے ہوں جیساکہ شوہر کی گفتگو سے معلوم ہورہا ہے ، توان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے ۔ اور نکاح ختم ہوچکا ہے ، عورت عدت (حمل ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش اور حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہ واریاں )مکمل ہونے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ۔ بہرحال شوہر کی نیت طلاق کی تھی یا نہیں؟ اس بارے میں شوہر ہی وضاحت دے سکتا ہے، اس لیے شوہر سے اس کی نیت معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’اگر ہندہ کو اس کے شوہر نے بہ نیتِ طلاق یہ کہا کہ ’’جا، آج سے میرا تیرا تعلق ختم‘‘ جیسا کہ مہر بھیجنے کے ذکر سے بھی معلوم ہوتا ہے تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی۔ وقتِ طلاق سے تین حیض گزرنے پر دوسری جگہ نکاح کی اجازت ہوگی، اگر حمل ہو تو وضعِ حمل سے عدت پوری ہوجائے گی۔فقط واللہ اعلم۔‘‘ 

(ج:12، ص:564،ط:فاروقیہ) 

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

وهي: ما لم يوضع له واحتمله وغيره (ولا يقع بها الطلاق إلا بنية أو دلالة حال) من مذاكرة الطلاق، أو وجود الغضب لأنها غير موضوعة للطلاق، بل تحتمله وغيره، فلا بد من التعيين أو دلالته، لأن الطلاق لا يقع بالاحتمال ... (أنت بائن) أو (وبتة) أو (وبتلة) أو (وحرام) أو(وحبلك على غاربك) أو (والحقي) بالوصل والقطع (بأهلك) أو (وخلية) أو (برية) أو (وهبتك لأهلك) أو (وسرحتك) أو (وفارقتك) أو (وأنت حرة) أو (وتقنعي) أو (وتخمري) أو (واستتري) أو (واغربي) بمعجمة فمهملة من الغربة وهي البعد أو (واعزبي) بمهملة فمعجمة من العزوبة وهي عدم الزواج أو اخرجي، أو اذهبي، أو قومي، أو (وابتغي الاأزواج) أو نحو ذلك ... أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها".

(كتاب الطلاق،ج:1،ص:268، ط: دارالكتاب العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں