بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آج کے بعد اگر تم بازار سے سودا لینے گئی تو مجھ پر حرام ہوگی؛ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

ہم مشترکہ خانددان میں رہتے ہیں،خواتین نے بازار سے سودا لانے کے دن بانٹے ہوئے ہیں،میری اہلیہ کو میں نے ایک دن غصہ میں یہ بول دیا کہ "آج کے بعد اگر تم بازار سے سودا لینے گئی تو مجھ پر حرام ہوگی"، اس بات کےکچھ عرصہ بعد  میری اہلیہ کو میں نے موبائل پر بات کرتے ہوئے اجازت دےدی تھی، پھر وہ معمول کے حساب سے بازار جانے لگی، اس بات کو دس ماہ گزر گئے ہیں اور ہم اس دوران اپنی معمول کی زندگی گزارتے رہے، سوال تب اٹھا جب میری اہلیہ اپنے میکے گئی اور انہوں نے کہا کہ طلاق واقع ہوچکی ہے، راہ نمائی فرماکر بتائیں کہ کیا طلاق واقع ہوچکی ہے؟یاد رہے کہ میں انہیں پہلے ہی اجازت دے چکا تھا، اور میں نے وہ الفاظ تنبیہ کے لیے استعمال کیے تھے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ"آج کے بعد اگر تم بازار سے سودا لینے گئی تو مجھ پر حرام ہوگی"، اور اس کے بعد سائل کی بیوی بازار میں سودا لینے چلی گئی، اگرچہ سائل کی اجازت سے ہی کیوں نہ گئی ہو، تواس پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی،سائل اور سائل کی بیوی کا نکاح ٹوٹ گیا، چوں کہ شرطیہ طلاق اجازت کے ساتھ مشروط نہیں تھی، بلکہ بازار جانے پر تھی اس لئے اجازت دینے سے تعلیق ختم نہیں ہوئی۔ اب اگر میاں بیوی دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو نئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، اور شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا، نیز جو وقت ایک ساتھ گزارا ہے اس پر دونوں توبہ واستغفار کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

(كتاب الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں