بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ِآئیڈیلز نام ویب ایپلیکیشن سے سامان لکی ڈرا کے ذریعے خریدنے کا حکم


سوال

متحدہ عرب امارات میں آئیڈیلز( idealz )نام کی ایک آن لائن ویب اپلیکیشن ( Online web Application ) ہے جو کچھ خاص سامان بیچتی ہے اور اس کا دفتر بھی ہے اس کے سامان بیچنے کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے جیسےکہ (15)درہم کا ایک نوٹ بک خریدنے پر ایک لکی ڈرا کارڈ ملتا ہے اس لکی ڈرا پر انعام تقریباً(200000) درہم ہوتاہے یا (5)درہم کا قلم خریدنے پر ایک لکی ڈرا کارڈ جس پر لکی ڈرا میں نام آنے پر( 100000) درہم کا انعام ہوتا ہے،  اور اسکے ہر سامان پرکچھ اسی طرح کا لکی ڈرا انعام ہوتا ہے تو کیا اس (idealz)سے لکی ڈرا انعام والا سامان خریدنا  اور اتفاقا انعام مل جانا کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ آن لائن آئیڈیلز ویب ایپلیکیشن  ميں  درج ذیل شرائط کا لحاظ كيا جاتا ہے تو مذکورہ ویب ایپلیکیشن سے لکی ڈرا کے ذریعے سامان خریدنا جائز ہے، شرائط مندرجہ ذیل هيں :

1: مذکورہ ویب ایپلیکیشن   سامان کی قیمت اتنی ہی مقرر کرے جو کہ مارکیٹ میں ایسے سامان کی رائج ہو،یعنی  اس سامان کی عام قیمت میں قرعہ اندازی  میں شریک کرنے کے لئے  اضافہ نہ کیا ہو،ورنہ یہ معاملہ جوئے (قمار) کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

2: مذکورہ ویب ایپلیکیشن اپنی مصنوعات  کا معیار بھی کم نہ کرے،تا کہ لکی ڈرا (انعامی اسکیم) کےنام پر کم معیار کی اشیاء سے خریدار کو دھوکہ اور نقصان نہ ہو۔

3:مذکورہ ویب ایپلیکیشن اس لکی ڈرا کو اپنی ناقص مصنوعات کے نکالنے کا ذریعہ نہ بنائے، یعنی انعام  کی  لالچ دے کر لوگوں کو اپنی ناقص مصنوعات خریدنے کی طرف راغب نہ کرے۔اور خریدنے والے کا بنیادی مقصد انعام نہ ہو

چنانچہ اگر مذکورہ شرائط کی مکمل رعایت رکھی جائے تو  آئیڈیلز نامی ویب ایپلیکیشن کا لکی ڈرا کے ذریعہ کسٹمر کو انعام دینا  مذکورہ ویب کی طرف سے تبرع اور احسان شمار ہوگا اور کسٹمر کے لیے اس انعام کا لینا جائز ہوگا، لیکن اگر مذکورہ شرائط  میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو گي  تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"(قوله والقرعة لتطييب القلوب وإزاحة تهمة الميل) قال الشراح: هذا جواب الاستحسان، والقياس يأباها لأن استعمال القرعة تعليق الاستحقاق بخروج القرعة وهو في معنى القمار والقمار حرام، ولهذا لم يجوز علماؤنا استعمالها في دعوى النسب ودعوى الملك وتعيين العتق أو المطلقة، ولكنا تركنا القياس هاهنا بالسنة والتعامل الظاهر من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من غير نكير منكر، وليس هذا في معنى القمار، لأن أصل الاستحقاق في القمار يتعلق بما يستعمل فيه، وفيما نحن فيه لا يتعلق أصل الاستحقاق بخروج القرعة، لأن القاسم لو قال أنا عدلت في القسمة فخذ أنت هذا الجانب وأنت ذاك الجانب، كان مستقيما إلا أنه ربما يتهم في ذلك فيستعمل القرعة لتطييب قلوب الشركاء ونفي تهمة الميل عن نفسه وذلك جائز، ألا يرى أن يونس - عليه السلام - في مثل هذا استعمل القرعة مع أصحاب السفينة كما قال الله تعالى {فساهم فكان من المدحضين} [الصافات: 141] وذلك لأنه علم أنه هو المقصود، ولكن لو ألقى نفسه في الماء ربما نسب إلى ما لا يليق بالأنبياء فاستعمل القرعة لذلك، وكذلك زكريا - عليه السلام - استعمل القرعة مع الأحبار في ضم مريم إلى نفسه مع علمه بكونه أحق بها منهم لكون خالتها عنده تطييبا لقلوبهم كما قال الله تعالى {إذ يلقون أقلامهم أيهم يكفل مريم} [آل عمران: 44] «وكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقرع بين نسائه إذا أراد السفر تطييبا لقلوبهن» ، انتهى كلامهم وعزا في النهاية ومعراج الدراية هذا التفصيل إلى المبسوط."

(کتاب القسمة، فصل فی کیفیة القسمة، ج:9، ص:440، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں