بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف کف موڑ کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

اگر آگے سے صرف کف موڑے ہوۓ ہوں، تو یہ بھی آستین چڑھانے کے حکم میں ہی ہے، یا اس کاحکم جدا ہے؟

جواب

اگر نماز شروع کرنے سے پہلےکف  موڑ کر اوپر کی طرف کی ہو تو ایسی حالت میں نماز مکروہ ہوگی، اگرچہ کف کہنیوں سے نیچے تک موڑی ہو،  خواہ گرمی اور پسینے کی وجہ سے کیوں نہ ہو۔

البتہ اگر آستین بہت  لمبی ہو، جس کی وجہ سے گٹے کی ہڈی چھپ رہی ہو، تو اس صورت کف صرف اس قدر موڑنا کہ جس کی وجہ سے گٹے کی ہڈی نظر آجائے، اس قدر موڑنے کی گنجائش ہے، اس سے زیادہ موڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

باقی اگر سائل کا مقصد سوال سے اس کے علاوہ کچھ اور ہے، تو اپنا سوال واضح کر کے دوبارہ ارسال کردے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل، (وعبثه به) أي بثوبه.

(قوله: أي رفعه) أي سواء كان من بين يديه أو من خلفه عند الإنحطاط للسجود، بحر. وحرر الخير الرملي ما يفيد أن الكراهة فيه تحريمية، (قوله: ولو لتراب) وقيل: لا بأس بصونه عن التراب، بحر عن المجتبى.

(قوله: كمشمر كم أو ذيل) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله، وأشار بذلك إلى أن الكراهة لا تختص بالكف وهو في الصلاة، كما أفاده في شرح المنية، لكن قال في القنية: واختلف فيمن صلى وقد شمر كميه لعمل كان يعمله قبل الصلاة أو هيئته ذلك اهـ ومثله ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراك الركعة مع الإمام. وإذا دخل في الصلاة كذلك وقلنا بالكراهة، فهل الأفضل إرخاء كميه فيها بعملٍ قليلٍ أو تركهما؟ لم أره: والأظهر الأول ؛ بدليل قوله الآتي: ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل، تأمل. هذا، وقيد الكراهة في الخلاصة والمنية بأن يكون رافعاً كميه إلى المرفقين. وظاهره أنه لا يكره إلى ما دونهما. قال في البحر: والظاهر الإطلاق ؛ لصدق كف الثوب على الكل اهـ ونحوه في الحلية، وكذا قال في شرح المنية الكبير: إن التقييد بالمرفقين اتفاقي. قال: وهذا لو شمرهما خارج الصلاة ثم شرع فيها كذلك، أما لو شمر وهو فيها تفسد ؛ لأنه عمل كثير."

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیھا، ج: 1، ص: 640، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100726

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں