بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آگے فروخت نہ کرنے کی شرط پر دکان فروخت کرنا


سوال

پشاور میں ایک شاپنگ مال بن رہا ہے جس میں دکانیں بیچی جاتی ہیں۔ دکان کی ملکیت خریدار کی ہوگی البتہ دکان میں وہ اپنا کاروبار نہیں کرسکتا ۔ صرف کرایہ لے گا۔ اس کی آفر یہ ہے کہ جتنے پیسوں پر دکان خریدی جائے گی  اس کا ایک فیصد رینٹ مکمل پیسے دینے کے ساتھ ہی شروع ہوگا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ دکان/شاپنگ مال ابھی تعمیر کے مراحل میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میں دکان کیش پرخریدوں اور وہ مجھے کرایہ دیں تو کیا یہ جائز ہوگا۔ کیونکہ دکان ابھی بنی نہیں ہے۔ مذکورہ کمپنی کے اور بھی پراجیکٹس ہیں۔ 

جواب

اگر شاپنگ مال  ابھی تک تعمیر نہیں ہوا ہے، اوراُس کی دکانیں  صرف نقشے کی حد تک موجود ہیں،تو اُس کا باقاعدہ سودا کرنا درست نہیں ؛ کیوں کہ جو چیز وجود میں نہ ہو  اور معدوم ہو  اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اور ایسی دکان کو خرید کر  کرایہ پر دے کر اُس کا کرایہ وصول کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ کرایہ داری کے معاملہ میں  مالک دکان کرایہ دار کو کسی منفعت کا مالک بناتا ہے، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب منفعت وصول کرنے کے لیے  دکان کا وجود ہو، اگر دکان کا وجود ہی نہ ہو گا تو کرایہ داری کا معاملہ  کرنا اور کرایہ وصول کرنا درست نہ ہو گا،البتہ اگر دکان کا کچھ نہ کچھ اسٹیکچر کھڑا ہوچکاہے تو اس کا سودا کرنا شرعا جائز ہے،لیکن  خرید وفروخت کے شرعی اصول کے مطابق جب کوئی شخص دکان وغیرہ خرید لیتا ہے تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے،اور اس کو اپنی چیز میں ہر قسم کا تصرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے،اور اس پر خرید وفروخت کے قوانین کے خلاف پابندیاں لگانے سے شرعی اعتبار سے وہ سودا فاسد شمار ہوتاہے،لہذا سائل کا مذکورہ شاپنگ مال میں اس شرط پر دکان خریدنا کہ وہ دکان پر اپنا کاروبار نہیں کرسکتا بلکہ وہ صرف اس دکان سے کرایہ لےگااور  وہ کرایا دکان کی فروخت شدہ قیمت کا ایک فیصد ہوگا ،شرعا جائز  نہیں ہے،کیونکہ یہ شرائط خرید وفروخت کے شرعی قوانین کے  خلاف ہیں،اس لئے ان شرائط کی بنیاد پر دکان خریدنے سے یہ سودا فاسد شمار ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  میں ہے:

"وشرعاً (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثياباً أو أواني؛ ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو داراً لا ليسكنها أو عبداً أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين."

(کتاب الاجارۃ،ج6،ص4،ط؛سعید)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

" فائدة:إذا ذكر المتبايعان شرطا مفسدا للبيع خارج العقد وجرى العقد دون أن يذكر فيه ذلك الشرط ويبنى عليه فالبيع لا يكون فاسدا أما إذا ذكراه داخل العقد وبنيا العقد عليه متفقين فالبيع فاسد.

فالشرط الفاسد أربعة أنواع هندية :

الأول: ما لم يكن من مقتضيات عقد البيع، أو المتعارف أو المشروع، أو المؤيد لمقتضى العقد، أو ما فيه نفع أو فائدة لأحد العاقدين فالبيع على مثل هذه الشروط فاسد قهستاني، رد المحتار ؛ لأن المقصود من البيع إنما هو التمليك والتملك خاصة أي أن يكون المشتري مالكا للمبيع والبائع مالكا للثمن بلا مانع ولا مزاحم. فإذا وقع في البيع شرط نافع لأحد العاقدين كان أحد العاقدين طالبا لهذا الشرط والآخر هاربا منه وأدى ذلك إلى النزاع بينهما فلا يكون العقد تاما.

وتجري الإجارة هذا المجرى إن عدم وقوع المنازعة في بعض العقود المحتوية لشرط فاسد لا يقتضي جواز هذا العقد الذي لم يقع فيه منازعة مع احتوائه لشرط فاسد؛ لأن العلة إنما تعتبر في الجنس لا في الأفراد وبيان ذلك أن البيع والإجارة المشتملين على شرط نافع لأحد العاقدين قد اعتبرا فاسدين لاحتمال أن يؤدي هذا الشرط إلى النزاع بين المتعاقدين؛ لأن جنس الإجارات والبيوع المشتمل على شرط نافع لأحد العاقدين من شأنه أن يؤدي إلى النزاع بينهما فلا ينبغي تجويز بعض الإجارات والبيوع المشتمل على شرط نافع لأحد العاقدين ولم يؤد إلى النزاع فإن الاعتبار للجنس لا للفرد منافع الدقائق."

(کتاب البیوع،الباب الأول في بيان المسائل المتعلقة بعقد البيع،ج1،ص162،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں