بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آگ لگنے کے وقت اذان دینا


سوال

کیا آگ لگنے کے وقت اذان دے سکتے ہیں؟

جواب

حنفیہ کے ہاں آگ لگنے کے وقت اذان دینا ثابت نہیں ،البتہ بعض ناگہانی آفات اورشدید مصائب وپریشانی کے مواقع پر اذان دینے کی بعض فقہاء نے  اجازت دی ہے۔

فتاوی بینات میں ہے:

’’علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: خیرالدین رملی رحمہ اللہ کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے، مثلاً: نومولود کے کان میں، پریشان، مرگی زدہ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں، کسی لشکر کے حملے کے وقت،آگ لگ جانے کے موقع پر. (شامی حاشیہ درمختار ج:۱ ص:۳۸۵)، خیرالدین رملی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دہشت پسندوں کے حملے کے موقع پر اذان کہنا حنفیہ کی کتابوں میں تو کہیں مذکور نہیں، البتہ شافعیہ کی کتابوں میں اس کو مستحب لکھا ہے، اس لیے ایسی پریشانی کے موقع پر اذان دینے کی ہم ترغیب تو نہیں دیں گے، لیکن اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اس کو ”بالکل غلط حرکت“ بھی نہیں کہیں گے، البتہ نومولود کے کان میں اذان کہنا احادیث سے ثابت ہے، اور فقہِ حنفی میں بھی اس کی تصریح ہے۔

(جلد ۲ ص:۲۳۱ ط:مکتبہ بینات)

فتاوی شامی میں ہے۔

" مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة

(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه۔"

(کتاب الصلوۃ ، باب الاذان جلد ۱ ص:۳۸۵ ط:دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے۔

"(قوله: وخرج بالفرائض إلخ) قال الرملي أي الصلوات الخمس فلا يسن للمنذورة ورأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة كما في أذان المولود والمهموم والمفزوع والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة وعند مزدحم الجيش وعند الحريق قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا لكن رده ابن حجر في شرح العباب وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول: ولا بعد فيه عندنا۔"

(کتاب الصلوۃ ، باب الاذان جلد ۱ ص:۲۶۹ ط: دارالکتاب الاسلامی)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307100773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں