بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آگ کو منصف بنانے كی رسم


سوال

آگ پر چل کر بے گناہی ثابت کرنے والی رسم ،کیا آگ کے ذریعے انصاف کرنا غیر شرعی ہے، ہوتا کچھ یوں ہے بلوچ لوگوں کا قدیمی قبائلی انصاف کے مطابق انگاروں سے بھرے ایک گڑھے کو منصف بنایا جاتا ہے ،جس کو بلوچی زبان میں آس آف یعنی آگ اور پانی یا چربیلی کا نام دیا جاتا ہے۔ چربیلی کی رسم بلوچ قبائل میں زیادہ مقبول ہے۔ جس کےتحت بارہ فٹ لمبا، اڑھائی فوٹ چوڑا اور دو فٹ گہرا گھڑا کھودا جاتا ہے۔ جس کو لکڑیوں سے بھر کر آگ لگا دی جاتی ہے۔ آگ کے شعلے ختم ہونے کےبعد جب انگارے تازہ ہوتے ہیں تو ایک آدمی قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے انگاروں کی کھائی کو قسم دیتا ہے کہ جو شخص مجرم ہو اس کو پکڑنا اور جو بےگناہ ہو اس کو معاف کرنا۔ انصاف غلط کیا تو قیامت کے دن تم (آگ) ذمہ دار ہو گی۔ اس قسم کا حلف دینے کے بعد ملزم کو انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے کے لیے کہا جاتا ہے۔انگاروں سے بھرے گڑھے کی دوسری طرف ان کے رشتہ دار تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے کے خون سے بھرا برتن لیے کھڑے ہوتے ہیں جس میں ملزم کے پاؤں چند منٹ کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ بعد میں جرگے کےامین کو ملزم کے پاؤں دیکھ کر اس کی بےگناہی یا گناہگار ہونے کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔اگر پاؤں میں چھالے ہونگے تو وہ شخص گناہ گار اور سزا کا حق دار ہوگا۔ کیا یہ کرنا درست ہے، برائے مہربانی اس کا شرعی حکم بیان کریں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے اس  بات کو طے کرنے کے لیے کہ کون حق پر اور کون نہیں    گواہ اور قسم کو معیار بنایا ،کہ  اولاً شرعی عدالت مدعی (دعوی کرنے والا)سے  گواہ طلب کرے گی ،اگر وہ اپنے دعوی کی سچائی پر شرعی  گواہ کو پیش  کر دیتا ہےیا مدعی علیہ (جس کے خلاف دعوی کیا گیا ہے )  خود ہی جرم کا اعتراف کر لیتا ہے تو مدعی کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے ،اور اگر وہ  شرعی گواہ پیش نہیں کر سکا  اور مدعی علیہ بھی انکار کر رہا ہے تو مدعی علیہ سے قسم لی جائے گی ،اگر اس نے قسم کھا لی تو مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیاجائے گا اور اگر قسم کھانے سے انکار کر دیا تو مدعی کے حق میں فیصلہ دیا جائے گا ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آگ کو  جو کہ ایک بے  جان  چیز ہے   منصف بنانا ،پھر پاؤں پر چھالے ہونا جوآگ پر پاؤں رکھنے کا  طبعی تقاضا  ہے،  اس کے ذریعہ فیصلہ کرنا شریعت میں ثابت نہیں ہے،  اس سے ہونے والا فیصلہ شرعاً باطل ہے، لہذا اس قسم  کی رسم کو ختم کرنا لازم ہے،  ورنہ ایسی رسم جاری رکھنے والے لوگ گناہ گار ہوں گے،اور آخرت میں عذاب ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي) لغة قول يقصد به الإنسان إيجاب حق على غيره وألفها للتأنيث فلا تنون وجمعها دعاوى بفتح الواو كفتوى وفتاوى درر، لكن جزم في المصباح بكسرها أيضا فيهما محافظة على ألف التأنيث، وشرعا (قول مقبول) عند القاضي (يقصد به طلب حق قبل غيره) خرج الشهادة والإقرار (أو دفعه) أي دفع الخصم (عن حق نفسه) دخل دعوى دفع التعرض فتسمع به يفتى بزازية."

(کتاب الدعوی ،ج:5،ص:541،ط:سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البينة ‌على ‌المدعي واليمين على المدعى عليه ."

(کتاب الامارۃ و القضاء ،باب الاقضیہ و الشہادات،ج:2،ص:1112،ط:المکتب الاسلامی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501102706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں