بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجارے کی زمین پر آفتِ سماوی کے بعد اجارہ کا حکم/ سیلابی ریلے میں آنے والے سامان کاحکم


سوال

اجارہ کی زمین پر اگر کسی آفت کی صورت میں نقصان ہوتا ہے تو وہ نقصان کون بھرے گا؟مالک یا کرایہ دار؟

اور اگر آفت کی صورت میں کوئی فائدہ ہوتا ہے تو وہ فائدہ کون لے گا؟مالک یا کرایہ دار؟جیسے کے اجارہ کی زمین پر ایک باغ لگایا اور سیلاب آگیا باغ کو خراب کر دیا مگر باہر سے لکڑی بھی لایا تو اب یہ لکڑی کس کا حق ہے؟مالک کا یا کرایہ دار کا؟

وضاحت:باغ اجیر کا ہے، نقصان زمین اور باغ دونوں کو ہوا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر آفتِ سماوی کی وجہ سے اجارہ پر دی گئی زمین کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو اس کا ضمان کرائے دار کے  ذمہ نہیں آئے گا، بلکہ زمین کا مالک خود  زمین کا  نقصان  برداشت کرے گا، البتہ باغ کا جو نقصان ہوا ہے وہ کرائے دار پر ہوگا۔

سیلابی ریلے میں آیا ہوا سامان شرعًا لقطہ کے حکم میں ہےلہذا ان میں سے جو اشیاءایسی معمولی ہوں جن کے بارے میں اس بات کا علم ہو کہ مالک  کو باوجود علم ہونے کے کہ اس کی چیزیں فلاں جگہ پر پڑی ہوئی ہیں ان کوتلاش نہیں کرے گا، ان چیزوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے، البتہ اگر ریلے میں آنے والی اشیاء  ایسی قیمتی ہوں  جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ مالک ان کو تلاش کرنے کی فکر کرے گا جیسے درخت اور قابل قدر لکڑیاں وغیرہ اُن اشیاء کی تشہیر کی جائے، پھر مالک کے آنے کی صورت میں چیز اس کو حوالہ کی جائے  اور مالک کے نہ آنے کی صورت میں  جب اس بات کا غالب گمان ہوجائے کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد مالک اب اس کی تلاش نہیں کرے گا، اس سامان کو صدقہ کر دے اور اگر سامان کو اٹھانےو الا خود بھی حاجت مند (مستحق زکوۃ) ہو تو خود استعمال کرنے کی گنجائش بھی ہے، البتہ  اگر مالک  سامان اٹھانے والے تک پہنچ جائے  اور  کیے گئے صدقہ کو باقی  رکھے تو صدقہ اپنی جگہ باقی رہے گا اور اس کو ثواب مل جائے گا، لیکن اگر مالک  اپنا  سامان طلب کرے اور سامان  صحیح حالت میں باقی  ہو تو پھر اصل  مالک ہی اس  سامان  کا مستحق ہوگا اور اگر لقطہ کا سامان ہلاک  یا استعمال ہوگیا ہے تو پھر مالک کو اختیار ہوگا کہ اٹھانے والے کو ضامن بنائے یا فقیر (جس کو صدقہ کیا گیا ہے) کو ضامن بنائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن استأجر أرضا فغرقت قبل أن يزرعها فمضت المدة فلا أجر عليه كما لو غصبها غاصب، وإن زرعها فأصاب الزرع آفة فهلك الزرع أو غرقت بعد الزرع ولم ينبت عن محمد - رحمه الله تعالى - في رواية كان عليه الأجر كاملا۔۔۔والمختار للفتوى أنه إن هلك الزرع لم يكن عليه لما بقي من المدة بعد هلاك الزرع أجر."

(كتاب الإجارة، الباب التاسع عشرفي فسخ الإجارة بعذر، ج:4، ص:462، ط:رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين."

(کتاب اللقطہ، ج:2، ص:289، ط:رشیدیہ )

وفیہ ایضاً:

"ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى في مواضع متفرقة وقشور الرمان في مواضع متفرقة، وفي هذا الوجه له أن يأخذها وينتفع بها إلا أن صاحبها إذا وجدها في يده بعد ما جمعها فله أن يأخذها ولا تصير ملكا للآخذ، هكذا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي - رحمهما الله تعالى - في شرح كتاب اللقطة، وهكذا ذكر القدوري في شرحه. ونوع آخر يعلم أن صاحبه يطلبه كالذهب والفضة وسائر العروض وأشباهها وفي هذا الوجه له أن يأخذها ويحفظها ويعرفها حتى يوصلها إلى صاحبها."

(کتاب اللقطہ، ج:2، ص:289، ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"إن كان الملتقط محتاجا فله أن يصرف اللقطة إلى نفسه بعد التعريف، كذا في المحيط، وإن كان الملتقط غنيًّا لايصرفها إلى نفسه بل يتصدق على أجنبي أو أبويه أو ولده أو زوجته إذا كانوا فقراء، كذا في الكافي."

(کتاب اللقطہ،  ج:2، ص:289 ،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں