بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

افعال عمرہ ادا کرنے کے بعد حلق سے پہلے احرام کھول دینے کی صورت میں کیا دم واجب ہوگا؟


سوال

1 ۔ایک بندہ پاکستان سے عمرہ کے لیے جاتا ہے، عمرہ مکمل کرنے کے بعد حلق کرا لیتا ہے اور پھر مسجد عائشہ، جعرانہ یا کسی اور میقات سے دوبارہ عمرے کا احرام باندھ کر پورا عمرہ کرتا ہے، لیکن حلق کے بغیر احرام کھول دیتا ہے،تو اس پر کیا واجب ہوگا؟

  2۔اگر پہلے عمرے کے بعد حلق کروایا اور دوسرے عمرے کے بعدقصر کروانا چاہتا ہے تو اس کا کیا طریقۂ کار ہوگا؟ کیوں کہ ابھی تک بال بڑے ہوئے ہی نہیں۔

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں اس شخص پر دو دم لاز م ہوں گے، اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

 1۔عمرہ کے ارکان ادا کرنے کے بعد احرام کھولنے کے ليے حلق یا قصر ضروری ہے، بغیر حلق یا قصر کے محض احرام کی چادریں کھولنے اور سلے ہوئے کپڑے وغیرہ پہننے کی وجہ سے احرام کھولنا شمار نہیں ہوتا، لہٰذا  مذکورہ افعال ممنوعات احرام کی وجہ سے جنایت شمار ہوں گے، جن کی وجہ سے ایک دم لازم ہوگا۔

2۔جب حلق یا قصر نہیں کیا تو احرام سے حلال نہیں ہوا، اب اگر انہوں نے حرم سے باہر جا کر حلق یا قصر کروایا تو حلال تو ہو جائے گا، لیکن حرم سے باہر  غیر حرم میں حلق/قصر کروانے کی وجہ سے بھی ایک دم لازم ہوگا؛ اس لیے کہ حلق/ قصر  حرم ہی میں کروا نا لازم ہے۔

(2) اگر پہلے عمرے کے بعد حلق کروایاہو اوردوسرا عمرہ ادا کرنے  کے وقت سر پر بال نہ ہوں تب بھی پورے سر پر استرا پھیرنا ضروری ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما،ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه."

(کتاب الحج، باب الجنايات في الحج، ج:2، ص:553، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم...

(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل؛ لتوقته بالمكان، وهذا عندهما، خلافاً للثاني، (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله أو عمرة، فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل؛ فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان، فتح. وأما حلق العمرة فلا يتوقت بالزمان إجماعاً، هداية. وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي، مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته، (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان، ط، (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر."

(كتاب الحج، باب الجنايات، ج:2، ص:554، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا جاء وقت الحلق ولم يكن على رأسه شعر بأن حلق قبل ذلك أو بسبب آخر ذكر في الأصل أنه يجري الموسى على رأسه لأنه لو كان على رأسه شعر كان المأخوذ عليه إجراء الموسى، وإزالة الشعر فما عجز عنه سقط وما لم يعجز عنه يلزمه ثم اختلف المشايخ في إجراء الموسى أنه واجب أو مستحب والأصح أنه واجب هكذا في المحيط". 

(كتاب المناسك، الباب الرابع فیما یفعله المحرم بعد الإحرام، ج:1، ص:231، ط: رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407101421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں