بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آئندہ بیٹی نہ ہونے کے عقیدے سے آخری بیٹی کا نام بی بی خاتمہ رکھنا


سوال

میرے گھر والوں نے میرا نام بی بی خاتمہ رکھا،  اس عقیدے سے کہ شاید اللہ تعالیٰ اولاد نرینہ سے نوازیں،الحمدللہ، پھر اللہ تعالیٰ نے اولادِ نرینہ سے نواز بھی دیا، میرا سوال یہ ہے کہ  بی بی خاتمہ نام کا مطلب کیا ہے اور شرعی اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز ہے یا نہیں؟کیا میں اپنا نام بدلوا سکتی ہوں جب کہ میرا شناختی کارڈ بھی اسی نام سے بنا ہوا ہے اور اگر میں اپنا نام بدلنا چاہوں تو کیا یہ درست ہوگا؟

جواب

1۔واضح رہے کہ اولاد کا مذکر یا مؤنث ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے،اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں مذکر اولاد عطا فرماتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں مؤنث اولاد عطا فرماتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں مذکر اور مؤنث دونوں قسم کی اولاد عطا فرماتے ہیں، اور جسے چاہتے ہیں کچھ بھی عطا نہیں فرماتے، نیز مؤنث اولاد بھی بہت بڑی نعمتِ خداوندی ہے، البتہ مذکر اولاد کی خواہش رکھنے کی شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، جب کہ وہ لڑکی ہونے کو ناپسند نہ کرے، لہٰذا آپ کے والدین نے جس عقیدے سے آپ کا نام "بی بی خاتمہ" رکھا، وہ عقیدہ درست نہیں تھا۔

2۔خاتمہ لفظ کے معنیٰ ہیں:ختم کرنے والی، آخر میں آنے والی، اس لحاظ سے یہ نام رکھنا درست ہے، نام تبدیل کروانے کی ضرورت نہیں ہے،اگر اس کے باوجود سائلہ اپنا نام تبدیل کرانا چاہے تو اس کی بھی شرعا اجازت ہے ۔

قرآن شریف میں ہے:

"لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)"

"ترجمہ: اللہ کی ہی سلطنت ہے آسمان اور زمین کی، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتاہے بیٹیاں عطا فرماتاہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتا ہے، یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی، اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت ہے۔ (از بیان القرآن)"

ان آیات کی تفسیر میں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"انسان کی تخلیق میں کسی کے ارادہ و اختیار بلکہ علم وخبر کا بھی کوئی دخل نہیں اور کسی کا تو کیا ہوتا انسان کے ماں باپ جو اس کی تخلیق کا ظاہری سبب بنتے ہیں، خود ان کے ارادے اور اختیار کا بھی بچہ کی تخلیق میں کوئی دخل نہیں، تخلیق میں دخل ہونا تو دور کی بات ، بچہ کی ولادت سے پہلے ماں کو بھی کچھ خبر نہیں ہو تی کہ اس کے پیٹ میں کیا، کیسا اور کس طرح بن رہا ہے ۔ یہ صرف حق تعالی کا کام ہے کہ کسی کو اولاد لڑکیاں دے دیتا ہے، کسی کو نرینہ اولا دلڑکے بخش دیتا ہے، کسی کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں عطا فرما دیتا ہے اور کسی کو بالکل بانجھ کر دیتا ہےکہ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوتی، ان آیات میں بچوں کی اقسام بیان کرنے میں حق تعالیٰ نے پہلے لڑکیوں کا ذکر فرمایا ہے،لڑکوں کا ذکر بعد میں کیا ہے، اسی آیت کے اشارہ سے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس عورت کے بطن سے پہلے لڑکی پیدا ہو وہ مبارک ہوتی ہے ۔ (قرطبی)"

(سورۃ الشوریٰ، ج:7، ص:712، ط:مکتبہ معارف القرآن)

لسان العرب میں ہے:

"ختم: ختمه يختمه ختما وختاما؛ الأخيرة عن اللحياني: طبعه، فهو مختوم ومختم، شدد للمبالغة، والخاتم الفاعل، والختم على القلب: أن لا يفهم شيئا ولا يخرج منه شيء كأنه طبع...قال أبو إسحاق: معنى ختم وطبع في اللغة واحد، وهو التغطية على الشيء والاستيثاق من أن لا يدخله شيء...وتفتح تاؤه وتكسر، لغتان. والختم والخاتم والخاتم والخاتام والخيتام: من الحلي كأنه أول وهلة ختم به، فدخل بذلك في باب الطابع ثم كثر استعماله لذلك وإن أعد الخاتم لغير الطبع...ختم الشيء يختمه ختما بلغ آخره، وختم الله له بخير. وخاتم كل شيء وخاتمته: عاقبته وآخره. واختتمت الشيء: نقيض افتتحته. وخاتمة السورة: آخرها."

(م، فصل الخاء المعجمة، ج:١٢، ص:١٦٣-١٦٤، ط:دارصادر)

القاموس الوحید میں ہے:

"خَتَمَ...الشيئَ و العملَ:ختم کرنا، مکمل کرنا، فارغ ہونا، آخر تک پہنچ جانا۔۔۔مہر لگانا۔"

(ختم، ج:1، ص:410، ط:ادارۂ اسلامیات)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں