بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آدھے پر جانور دینے کی جائز صورت


سوال

گاؤں میں جو بکریاں دیا کرتے ہیں آدھے پر ،عرف میں تو یہ مشہور ہے کہ چرانے والا پیسے نہیں ملاتااور جب اس کے بچے ہو جاتے ہیں تو ان میں آدھے  لے لیتاہے،  اس کی جائز صورت کیا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ معاملہ شرعا جائز نہیں ، اس  کے جواز کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:

1-   ایک صورت یہ ہے کہ بکریوں کا مالک اپنی بکریاں کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت مقرر کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

2۔  دوسری صورت یہ ہے کہ   دونوں شریک پیسے ملا کربکریاں خریدیں، اس صورت میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعاً غلط ہے، بلکہ دونوں شریک ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے ۔

3۔تیسری صورت يہ ہے كہ بکریوں کا مالک  اپنی بکریوں کاآدھا حصہ  آدھی  قیمت کے بدلے پالنے والے کوبیچ دے ،پھر بکریوں کا مالک پالنے والے کو وہ قیمت معاف کردے،تو اس طرح  دونوں کے درمیان  وہ بکریاں مشترک ہوجائیں گی اور  ان سے  جو بچے   پیدا ہوں گے ، ہر ہر بچے میں  مالک اور پالنے والا شریک ہو گااور اس طرح ان بکریوں کے دودھ وغیرہ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے،نیز یہ قیمت معاف کرنا  ضروری نہیں ہے، اگر پالنے والے کے پاس فی الحال پیسے نہ ہوں، تو اس کے حصے کی رقم ادھار کرلی جائے، اور جیسے اس کے پاس گنجائش ہو وہ ادا کرلے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولا خلاف ‌في ‌شركة ‌الملك أن الزيادة فيها تكون على قدر المال حتى لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع"

(کتاب الشرکۃ،فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة62/6 ط:دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما".

( کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه445/5، ط:دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية"

(کتاب الاجارۃ،الباب الأول في تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها 409/4 ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں