بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آدھے منافع کے عوض جانور خدمت کے لیے دینے کا حکم


سوال

میری ایک بھینس ہے،  جس کی مالیت ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے  160000ہے، میں نے ایک آدمی کو یہ بھینس ادھیارے پر دی، جس کی تفصیل یہ ہے کہ بھینس کو چارہ وغیرہ ساری خدمت وہ آدمی کرے گا اور بھینس کا دودھ آدھا آدھا ہم دونوں استعمال کریں گے۔

جب بھینس بچہ دینے والی ہو جاتی ہے   تو اس وقت اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، یعنی تقریباً 240000  روپے ہوجاتی ہے، جو اصل قیمت سے تقریباً80000 روپے زیادہ ہوتی ہے، اس وقت ہم اگر وہ بھینس فروخت کرتے ہیں تو میری بھینس کی خدمت کرنے والا آدمی اس منافع والی رقم 80000 میں آدھا حصے دار ہو گا یعنی 40000 کا، اگر فروخت نہ ہوئی تو صرف دودھ میں ہی حصہ دار رہے گا، کیا یہ معاملہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کیا گیا معاملہ جائز نہیں ہے، یہ اجارۂ فاسد کی صورت ہے، ایسی صورت میں دودھ اور بچے دونوں مالک کے ہوں گے، اور بھینس کی خدمت کرنے والے شخص کو اجرت دی جائے گی، یعنی عام طورپر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جواجرت بنتی ہے، وہ اجرت دی جائے گی۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

جانور کو آدھے حصے پر پالنے کے لیے دینا

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال أبو حنيفة: ولو أن رجلاً دفع دابة إلى رجل ليؤاجرها؛ على أن ما آجرها من شيء، فهو بينهما نصفان، فهذه الشركة فاسدة، والأجر كله لرب الدابة، وللذي آجرها أجر مثل عمله.

وعلى هذا إذا دفع البقرة إلى إنسان بالعلف، ليكون الحادث بينهما نصفان، فما حدث فهو لصاحب البقرة، ولذلك الرجل مثل علفه الذي علفها، وأجر مثل ما قام عليها؛ لأنه غير متبرع في ذلك حيث شرط لنفسه نصف الحادث، وعلى هذا إذا دفع الدجاجة إلى رجل بالعلف ليكون البيض بينهما نصفان. والحيلة أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل، ونصف الدجاجة ونصف بذر العلق بثمن معلوم حتى تصير البقرة وأجناسها مشتركة بينهما، فيكون الحادث منهما على الشركة."

(كتاب الشركة، الفصل السادس في الشركة بالأعمال، ج:٦، ص:٤٣، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال:ہمارے اطراف میں ایسا ہوتا ہے کہ امیر لوگ جانور خرید کر غریبوں کو پالنے کے لیے دے دیتے ہیں، بکری اور مرغی کو اس شرط پر دیتے ہیں کہ پیدا ہونے والے بچے میں نصفا نصف کے شریک رہیں گے، مثلاً: بکری کے دو بچے پیدا ہوئے تو ایک مالک کا اور ایک پالنے والے کا اور گائے بھینس کی قیمت لگا کر دیتے ہیں، لیکن دودھ اور بچے میں دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں، اس کے بارے میں تحریر فرمائیں۔

جواب: یہ سب ناجائز ہے، ایسی صورت میں وہ جانور اور اس سے پیدا ہونے والی چیز :انڈے ،بچے، دودھ سب اصل مالک کی ہے اور پالنے والا اجر مثل کا مستحق ہے۔"

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃالفاسدۃ، ج:16، ص:599، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں