بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

’’ آدھی زمین مسجد کی ہے ‘‘کہنے سے وقف کا حکم


سوال

 ایک عورت نے اپنی زندگی میں اپنے رشتہ داروں سے ایک کنال زمین کے متعلق کہا کہ آدھی کنال آپ کی ہے ،آدھی مسجد کی،جب وہ فوت ہو گئے تو آدھی کنال پر  ان لوگوں نے گھر بنا لیا، جبکہ آدھی کنال مسجد کےلئے چھوڑ دی، اب مسئلہ یہ ہے کہ جہاں یہ آدھی کنال مسجد کی موجود ہے، اس جگہ کے بالکل قریب مغرب میں بھی ایک مسجد بنی ہوئی ہے اور مشرق میں بھی، یہ صرف زمین ہے مسجد کی بنیاد نہیں رکھی گئ، پوچھنا یہ تھا کہ کیا یہ جگہ بیچ کر ان پیسوں سے کہیں اور نئی  مسجد تعمیر کریں تو ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ  میں عورت کا اپنی زندگی میں رشتہ داروں سے زمین کے متعلق  یہ کہنا کہ ’’آدھی کنال آپ کی ہے اور آدھی مسجد کی ہے ‘‘،اس سے مسجد کے لیے مذکورہ زمین کا وقف اور  ورثاء کے لیے ہدیہ مکمل نہیں ہوا ،اس لیے   کہ مسجد کے لیے  وقف یا کسی کے لیے ہدیہ کےمکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ  اگر قابل ِتقسیم چیز ہو  تو اس کو متعین اور تقسیم کرکے وقف اور ہدیہ کیا جائے،جبکہ مذکورہ صورت میں مشترکہ طور پر آدھی زمین وقف اور آدھی زمین ورثاء کے لیے ہدیہ کی گئی ہے ،لہذ ا عورت کے انتقال کے بعد پوری زمین عورت کے ترکہ ميں شمار  ہوگی ۔

البتہ چونکہ مذکورہ عورت کی منشاء آدھی جگہ مسجد کےلئے وقف کرنے کی تھی اگرچہ وقف کے  شرعی تقاضے پورے ہونے میں کمی رہ جانے کی وجہ سے وقف نامکمل رہا، لہذا  مرحومہ کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے  ورثاء اس جگہ کو مسجد کے لیے دینے پر راضی ہیں اور تمام ورثاء عاقل بالغ بھی ہیں  اور مذکورہ جگہ کے قریب اور مساجد ہیں تو یہ زمین بیچ کر ان پیسوں سے دوسری جگہ نئی مسجد تعمیر کریں یا کسی اور مسجد میں وہ  پیسے دے دیں تو ان کو بھی اس کا اجر ملےگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(والملك يزول) عن الموقوف بأربعة بإفراز مسجد كما سيجيء.

 (قوله بإفراز مسجد) عبر بالإفراز لأنه لو كان مشاعا لا يصح إجماعا."

(كتاب الوقف ،رد المحتار4/ 343ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اهـ ويصح أن يراد بالفعل الإفراز، ويكون بيانا للشرط المتفق عليه عند الكل كما قدمناه من أن المسجد لو كان مشاعا لا يصح إجماعا."

 (كتاب الوقف ،رد المحتار4/ 355ط:سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144401100465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں