بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آدھے آدھے نفع پر بکریاں دوسرے کو پالنے کے لیے دینا


سوال

اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو بکریاں لے کر دے اس شرط پر کہ راس المال میرا اور نفع نصفا نصفا تقسیم ہو گا اور بکریاں وہ محدود مدت کے لیے چرائے گا، کیا یہ صورت جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے،  بلکہ ایسی صورت میں بکریوں سے حاصل ہونے والا نفع مثلًا دودھ اور بچے وغیرہ دونوں مالک کے ہوں گے، اور پالنے والے کو اجرت دی جائے گی،یعنی عام طور پر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جو اجرت بنتی ہے، پالنے والا اس اجرت کا مستحق ہوگا۔ 

اس کے متبادل جواز کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:

۱۔۔  ایک صورت تو وہی ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

2۔۔ زید (مثلًا)  اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمرو (مثلًا) کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے، پھر زید عمرو کو وہ پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا،  اس جانورسے  جو بچے   پیدا ہوجائیں، ہر ہر بچے میں زید اور عمرو برابر شریک ہوں گے اور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے۔

3۔۔  زید اور عمرو   دونوں پیسے ملا کرجانور خریدیں،  اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا ، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعًا غلط ہے، دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے۔

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة...

(4/۵۰4۔ کتاب الأجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه  ط: رشیديه)

خلاصۃ الفتاوی ہے:

" رجل دفع بقرة إلى رجل بالعلف مناصفة وهي التي تسمى بالفارسية كاونيم سوو بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان فهذا فاسد والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة."

(خلاصة الفتاوی:۳/۱۱4۔کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب۔۔ومایتصل بها۔ط/قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ."

(6/6۲۔کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ۔ط/سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة ... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما."

(4/۵۰4۔ کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه  ۔ط/رشیديه)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ."

(المبسوط للسرخسی:۱۵/6۔کتاب القسمة،۔ الناشر:دار المعرفة – بيروت ۔تاريخ النشر: 1414هـ = 1993م)۔

البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید کی صورت میں اس کی گنجائش ذکر کی ہے، لہذا اگر  کہیں ابتلاءِ عام ہو تو ایسا معاملہ کرنے کی گنجائش ہو گی، لیکن بہرحال احتیاط کرنا زیادہ بہتر ہے۔  (امداد الفتاوی۔3/342)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں