بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آدھے چہرے والی تصویر کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص فیس کٹ کی تصویر کھنچواتا ہے یعنی اس کا آدھا چہرہ تصویر میں آتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

جان دار کی  تصویر میں  اگر  اس طرح کا تصرف کردیا جائے کہ  دیکھنے کے بعد جان دار کی تصویر معلوم نہ ہوتی  ہو (مثلًا تصویر میں سر یا چہرہ مکمل طور پر ہٹا دیا جائے) تو وہ حرام تصویر کے زمرے سے نکل جاتی ہے، لیکن اگر جان دار کی حکایت ہورہی ہو تو وہ پھر بھی حرام تصویر ہی رہتی ہے؛ لہٰذا اس طور پر تصویر بنوانا کہ تصویر میں صرف آدھا چہرہ آئے یہ بھی شرعا ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں کہ ایسی تصویر سے بھی جاندار کی حکایت ہوتی ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

" (قوله: أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً؛ ولما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال: أيكم ينطلق إلى المدينة فلايدع بها وثناً إلا كسره ولا قبراً إلا سواه ولا صورةً إلا لطخها» اهـ.

وأما قطع الرأس عن الجسد مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك ولهذا فسر في الهداية المقطوع بمحو الرأس كذا في النهاية. قيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين. وفي الخلاصة: وكذا لو محى وجه الصورة فهو كقطع الرأس".

(2/ 30،کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیھا، ط: دار الکتاب الاسلامی)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"وإن کانت مقطوع الرأس لا بأس به، وکذا لو محی وجه الصورة فهو کقطع الرأس".

(1/58، کتاب الصلوٰۃ، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں