بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عادت سے زیادہ حیض آنے کا حکم


سوال

جنوری میں فاطمہ کی حیض کی عادت آٹھ دن کی تھی اور فروری میں بھی آٹھ دن کی رہی ،پھر مارچ میں اس کو دس دن سے زیادہ حیض آیا تو  فاطمہ نے آٹھ سے اوپر کے  دنوں کی دسویں دن غسل کرکے باقی نمازوں کی قضا کی ، اسی طرح اپریل میں ہوا کہ دس دن سے زیادہ حیض آیا تو اس نے  آٹھ دن  سے اوپر  کے دنوں   کا حساب لگا کر نمازوں کی قضا کی ، اب ہر ماہ دس دن سے زیادہ حیض آنے لگا ہے، لیکن کبھی دس دن نہیں آیا تو کیا اسی طرح ہر ماہ نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی ؟

جواب

صورت مسئولہ میں  جب ماہ واری کی عادت آٹھ دن متعین ہے،پھر یہ دو مہینے سابقہ عادت سے زیادہ حیض کا سلسہ جاری رہا،یہاں تک کہ  دس دنوں سے بھی زیادہ کی مدت ہوگئی ،تو ایام عادت  آٹھ دن حیض سمجھا جائےگا، اور اس کے بعد کے دنوں کا خون  استحاضہ سمجھاجائے گا،لہذا  جب تک   عادت نہیں بدلتی،  ایام استحاضۃ کے دنوں میں  ہر نماز  کے وقت کے لیےالگ وضو کرکے نمازبھی پڑھے گی، اور روزہ بھی رکھے گی،اگر نماز  روزے رہ گئے تو ان کی قضاکرنی ہوگی۔

فتح القدیر میں ہے:

"(ودم الاستحاضة) كالرعاف الدائم لا يمنع الصوم ولا الصلاة ولا الوطء لقوله عليه الصلاة والسلام «توضئي وصلي وإن قطر الدم على الحصير» ‌وإذا ‌عرف ‌حكم الصلاة ثبت حكم الصوم والوطء بنتيجة الإجماع (ولو) (زاد الدم على عشرة أيام) ولها عادة معروفة دونها ردت إلى أيام عادتها."

(كتاب الطهارة، باب الحيض والاستحاضة، ج:1، ص: 176، ط: دارالفكر بيروت)

البحراالرائق میں ہے:

"ولو ‌زاد ‌الدم على أكثر الحيض والنفاس فما زاد على عادتها استحاضة) ؛ لأن ما رأته في أيامها حيض بيقين وما زاد على العشرة استحاضة بيقين وما بين ذلك متردد بين أن يلحق بما قبله فيكون حيضا فلا تصلي وبين أن يلحق بما بعده فيكون استحاضة فتصلي فلا تترك الصلاة بالشك فيلزمها قضاء ما تركت من الصلاة والمراد بالأكثر عشرة أيام وعشر ليال في الحيض حتى إذا كان عشرة أيام وتسع ليال، ثم زاد الدم فإنه حيض حتى يزيد على ليلة الحادي عشر."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، الحكم فيما لو زاد الدم علي اكثر الحيض والنفاس، ج:1، ص: 223، ط: دارالكتب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں