بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی وطن چھوڑ کر دوسری جگہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ مستقل طور پر رہائش اختیار کرنے کی صورت میں آبائی وطن میں قصر کرے گا یا اتمام؟


سوال

بندہ کی پیدائش و رہائش گلشن  حدید ضلع ملیر کراچی  کی ہے، جب کہ آبائی وطن ضلع  خوشاب (پنجاب)   گاؤں  ہے، سوال یہ کہ میرا معمول  یہ ہے کہ جب گاؤں جاتاہوں تو قیام چاہے  ایک ہفتہ کا ہو یا ایک ماہ کا میں نماز مکمل پڑھتاہوں، جب کہ میرے ایک قریبی رشتہ دار عالم دین جو چکوال کے ایک جامعہ میں شیخ الحدیث  ہیں اور چکوال کے قریب  ایک علاقہ میں رہائش پذیر  ہیں، وہ آبائی  گاؤں  تشریف لانے کے بعد قصر نماز پڑھتے ہیں اور مولاناصاحب نے مجھے  بھی   کہا کہ آپ  بھی مکمل  نماز کی  بجائے   قصر  پڑھیں اور وجہ  یہ بتائی کہ آپ وطن ترک کرچکے  ہیں اور اصول یہ ہے کہ تبدیلِ  وطن سے حکم تبدیل ہوجاتا ہے ،جب کہ اس سے قبل میں نے چند علماءجو گاؤں سے باہر  رہتے ہیں ،ان سے معلوم کیاتھا ان کاکہنا تھا کہ آبائی گاؤں میں  نماز مکمل پڑھیں  گے، اس لیے کہ  گاؤں میں زمین  ہے،ایک بات مزید کہوں گا  بسا اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن نہ ہونے میں  مصلی میں امامت کرنی پڑتی ہے  ،کیا امامت کی گنجائش  ہوگی؟    

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل نے پنجاب سے مستقل طور پر تعلق ختم کرکے اپنی  وطنیت  ختم نہیں کی ،بلکہ  کراچی میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نیت ہے کہ پنجاب کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہےاور وہاں سائل کا ذاتی گھر بھی ہے، تو  سائل   پندرہ دن سے کم یا زیادہ جتنے دن  بھی وہاں ٹھہرے گا  مکمل نماز پڑھے گا، لیکن اگر  سائل  نے یہ نیت کی ہے کہ اب پنجاب  ہمارا وطن اصلی نہیں رہا  اور اہل وعیال سمیت کراچی ميں رہائش اختيار  کرلی ہےاور اب وہاں رہنے کا ارادہ نہیں ہےاور نہ ہی وہاں گھر  ہے، تو اس صورت ميں اگرسائل  پندرہ دن سے کم کے لیے پنجاب جائے گا تومسافر  شمار ہو  گا اور قصر نمازپڑھے گا، سائل کے لیے اگر امامت سے مانع کوئی اور سبب نہ ہو تو امامت کرانا بہر صورت جائز ہے ،تاہم جس صورت میں سائل  مقیم ہونے کی وجہ سے  پوری نماز پڑھے گا  مقتدی  بھی پوری نماز پڑھیں اور جس صورت میں  سائل مسافر ہونے کی وجہ سے قصر کرے گا تو مقیم مقتدی  پوری  نماز پڑھیں  گے  البتہ نماز سے پہلے  ہی مقتدیوں کواپنے مسافر ہونے کے بارے میں   مطلع کردے یا سلام پھیر کر بتادے کہ میں مسافر ہوں، آپ لوگ بقیہ نماز پوری کرلیں تاکہ وہ سائل کے سلام  پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز پوری کرسکیں ۔

بحر الرائق ميں ہے:

"وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. ا هـ

 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر."

(كتاب الصلاة،باب صلاة المسافر،اقتداء مسافر بمقيم في الصلاة،ج:2،ص:147،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والأصل أن الشيء يبطل بمثله) كما يبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي، و وطن الإقامة بوطن الإقامة، و وطن السكنى بوطن السكنى."

(کتاب الصلاۃ ،مطلب في الوطن الأصلي ووطن الإقامة،ج:2،ص:132،ط:سعيد) 

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144311101059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں