بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی وطن میں قربانی کروانا / قربانی میں اور لوگوں کر شریک کرنا


سوال

۱- کیا ایک ملک میں رہتے ہوئے دوسرے ملک (اپنے آبائی وطن) میں قربانی کروانے سے کیا واجب/سنت موکدہ ادا ہوجائے گی؟کیوں کہ ایک سعودی شیخ نے کہا ہے کہ اس طرح کی قربانی سنت قربانی نہیں، بلکہ صدقہ تصور کی جائے گی ۔

۲- ایک پاکستانی عالم نے کہا کہ اپنے اوپر واجب/ سنت موکدہ قربانی میں کسی اور کا نام شامل نہیں کرسکتے، البتہ دوسرے جانور کی قربانی میں جتنے چاہے قرابت داروں کو شامل کر سکتے ہیں، براہ کرم اس الجھن کو دور فرمائیے تاکہ قربانی اسی سال (۲۰۲۰)میں تسلی سے دے سکوں ؟

جواب

۱۔۔ واضح رہے کہ قربانی کرنے والا خود بھی قربانی کرسکتا ہے اور کسی اور کو وکیل بھی بناسکتا ہے، اور قربانی اپنے ملک میں بھی کرسکتا ہے اور کسی اور ملک میں بھی کرواسکتا ہے یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔البتہ اگر آدمی خود کسی اور ملک میں ہو اور قربانی کے لیے کسی کو  دوسرے ملک میں وکیل بنائے تو اس صورت میں قربانی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔

باقی بہتر یہ ہے کہ ا ز خود جانور لے کر اس کے ذبح ہونے تک کے مراحل میں شامل ہوا جائے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود اپنے دست مبارک سے دو مینڈھے ذبح کیے،(ترمذی، ابن ماجہ)  نیز ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدتنا فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ قربانی کے وقت قربانی کے جانور کے پاس رہ کر (قربانی ہوتے دیکھو)۔(مستدرک حاکم)

 چنانچہ جس شخص کو جس قدر  استطاعت ہو وہ قربانی کرنے کے سلسلے میں جانور خریدنے سے لے کر اس کے ذبح تک کسی قسم کی مشقت اٹھانے سے دریغ نہ کرے۔

تاہم اگر کسی مجبوری کی بنا پر کوئی شخص ازخود ان مراحل یا ان میں سے کسی مرحلے کو طے نہ کرسکے، یا کسی مصلحت کے پیشِ نظر اپنے وطن یا دوسری جگہ  قربانی کرواتا ہے، تو یہ بھی درست ہے۔

بدائع الصنائع  (5/ 74):

"وإن كان الرجل في مصر، وأهله في مصر آخر، فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة، فقال: ينبغي لهم أن لايضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة -. وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعاً، وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال، فعنده لايذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعاً، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس، فإذا زالت ذبحوا عنه.

(وجه) قول الحسن: أن فيما قلنا اعتبار الحالين: حال الذبح وحال المذبوح عنه، فكان أولى. ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه، ويجوز الذبح في أيام النحر نهرها ولياليها؛ وهما ليلتان: ليلة اليوم الثاني وهي ليلة الحادي عشر، وليلة اليوم الثالث وهي ليلة الثاني عشر، ولايدخل فيها ليلة الأضحى وهي ليلة العاشر من ذي الحجة؛ لقول جماعة من الصحابة -رضي الله عنهم -: أيام النحر ثلاثة، وذكر الأيام يكون ذكر الليالي لغةً، قال الله عز شأنه في قصة زكريا عليه الصلاة والسلام: ﴿ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا﴾ [آل عمران: 41] وقال عز شأنه في موضع آخر: ﴿ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا﴾ [مريم: 10] والقصة قصة واحدة، إلا أنه لم يدخل فيها الليلة العاشرة من ذي الحجة؛ لأنه استتبعها النهار الماضي وهو يوم عرفة؛ بدليل أن من أدركها فقد أدرك الحج، كما لو أدرك النهار وهو يوم عرفة، فإذا جعلت تابعةً للنهار الماضي لاتتبع النهار المستقبل، فلاتدخل في وقت التضحية، وتدخل الليلتان بعدها، غير أنه يكره الذبح بالليل؛ لا لأنه ليس بوقت للتضحية، بل لمعنى آخر ذكرناه في كتاب الذبائح، والله عز شأنه أعلم".

۲۔۔ اگر قربانی کا جانور بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ دنبی وغیرہ ہیں تو ان میں قربانی کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اگر گائے، بیل، بھینس یا اونٹ وغیرہ ہیں تو ان میں قربانی کے سات حصہ ہوسکتے ہیں۔ اور ایک حصہ ایک شخص کی طرف سے کافی ہوتا ہے، ایک حصہ میں دو افراد شریک ہوں جائیں تو کسی ایک کی بھی واجب قربانی ادا نہیں ہوگی، لہذا اگر  قربانی کا چھوٹا جانور مثلاً بکراہے، اس میں اپنی واجب قربانی کے علاوہ کسی اور کو شریک کرنا جائز نہیں ہے، اور بڑا جانور ہے مثلاً گائے تو اس میں اپنے ایک حصہ کے علاوہ باقی چھ حصوں  میں دیگر لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

نیز  نفلی قربانی کے ایک حصہ میں کئی افراد کے ایصال ثواب کی نیت بھی کی جاسکتی ہے، بلکہ ایصالِ ثواب میں بہتر ہے کہ پوری امت کو ثواب پہنچانے کی نیت کی جائے۔

بدائع الصنائع  (10/ 278):
'' فَلَا يَجُوزُ الشَّاةُ وَالْمَعْزُ إلَّا عَنْ وَاحِدٍ وَإِنْ كَانَتْ عَظِيمَةً سَمِينَةً تُسَاوِي شَاتَيْنِ مِمَّا يَجُوزُ أَنْ يُضَحَّى بِهِمَا ؛ لِأَنَّ الْقِيَاسَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ أَنْ لَا يَجُوزَ فِيهِمَا الِاشْتِرَاكُ ؛ لِأَنَّ الْقُرْبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ إرَاقَةُ الدَّمِ وَأَنَّهَا لَا تَحْتَمِلُ التَّجْزِئَةَ ؛ لِأَنَّهَا ذَبْحٌ وَاحِدٌ وَإِنَّمَا عَرَفْنَا جَوَازَ ذَلِكَ بِالْخَبَرِ فَبَقِيَ الْأَمْرُ فِي الْغَنَمِ عَلَى أَصْلِ الْقِيَاسِ''
.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں