بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی گھر چھوٹے بیٹے کو ملنے کے رواج کا حکم


سوال

ميرا تعلق آزادکشمیر کے علاقے راولاکوٹ سے ہے، ادھر یہ رواج ہے کہ آبائی گھر سب سے چھوٹے بھائی کو دیا جاتا ہے، آپ پاکستانی اور اسلامی قانون کے مطابق اس کی تشریح بتا دیں کہ اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، اگر باقی بھائی اس پہ راضی نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں والد جب تک زندہ ہیں ان کی جائیداد پر ان ہی کا حق ہے، اولاد یا کسی اور کا اس میں کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہے، اور والد کے انتقال کے بعد  جو کچھ ان کی ملکیت میں ہو وہ ان کا ترکہ شمار ہوتا ہے،  جس میں مرحوم کے تمام شرعی ورثاء کا شرعی حصص کے مطابق حق وحصہ ہوتا ہے اور وہ سب اس ترکہ میں باہم شریک ہوجاتے ہیں، لہذا اگر والد کے انتقال کے بعد ان کا مکان موجود ہو تو اس میں ان کے تمام ورثاء کا حق وحصہ ہوگا، شرعی طور پر چھوٹا بیٹا والد کے متروکہ گھر کا  تنہا مالک نہیں ہوگا۔

البتہ اگر والد اپنی زندگی میں اپنا گھر اپنے کسی  بیٹے کو مکمل مالکانہ تصرف  کے ساتھ ہبہ (گفٹ) کردے، اور اس کا قبضہ بھی اس کو دے دے اور ہبہ کرتے وقت اس سے اپنا تصرف بالکل ختم کردے تو اس گھر کا مالک بیٹا بن جائے گا، اس صورت میں والد کے انتقال کے بعد وہ گھر ترکہ کا شمار نہیں ہوگا، تاہم والد کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا  کسی ایک کو بیٹا کو مالک بنادینا اور دیگر  اولاد کو محروم کردینا ناانصافی اور ناجائز ہے، اولاد کے درمیان  ہبہ میں برابری ضروری ہے۔

ہاں اگر مذکورہ گھر ترکہ کا ہو، اور اس کی قیمت لگالی جائے اور سب ورثاء  رضامندی سے وہ گھر  مرحوم کے چھوٹے بیٹے  کو دے دیں اور جس قدر دیگر اولاد کا حصہ بنتا ہے وہ اس بیٹے سے قیمتاً لے لیں تو یہ جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.

 (6/759،  کتاب الفرائض، ط؛ سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

لایجوز لاحد  ان یاخذ  مال احد  بلا سبب شرعی.

(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له فيالدين.

 (7/288، کتاب الھبۃ، ط؛ رشیدیہ)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية.

(4/378،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط؛ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں