بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی وطن چھوڑ کر دوسری جگہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ مستقل طور پر رہائش اختیار کرنے کی صورت میں آبائی وطن میں قصر کرے گا یااتمام؟


سوال

میرا تعلق پلوچستان کے ایک قبائلی علاقے(چھپر ) سے ہے، جو ضلع موسیٰ خیل سے کئی میل کے مسافت پر دور دراز اونچے پہاڑوں پر واقع ہے، بنیادی ضروریات کا فقدان ہے ، لوگ بارش کا پانی پیتے ہیں،ذریعہ معاش گلہ بانی ہے، تقریباً 2000 ء کے بعد 85 فیصد لوگ بمعہ اہل وعیال اور ضروری ساز وسامن کے نقل مکانی کرکے پنجاب سندھ میں جائیدادیں بناکر مستقل طور پر آباد ہوگئے ہیں، علاقے سے تعلق صرف اتنا رہا کہ فوتگی ہوجائے، تو میت کو اپنے آبائی وطن میں دفناتے ہیں یا جن گھروں میں ضعیف العمر، بزرگ حضرات جو  گرمی میں روزہ رکھنے کے قابل نہیں رہے، انہیں لے کر کچھ لوگ رمضان گزارنے جاتے ہیں، اسی طرح انتخابات میں ووٹ ڈالنے دو تین دن کے لیےجاتے ہیں، آبا ء واجداد کے بنائے ہوئے گھر ویران پڑے ہوئے ہیں، پتھروں کو تراش تراش کر کچھ زمینیں جو انہوں نے بنائیں تھیں بارشیں ہوں تو کچھ زمیں وہاں مقیم لوگ آباد کرتے ہیں، ورنہ وہ بھی ویران پڑی رہتی ہیں، لیکن چوں کہ آبائی وطن ہے، سارا خاندان وہی مدفون ہیں، اس لیے سال میں ایک دو بار ان کی زیارت یا کسی اور کام کے سلسلے میں چند دنوں کےلیے آنا جانا رہتا ہے، وہاں کے مقامی علماء کا کہنا ہے کہ آپ یہاں مسافر نہیں مقیم ہیں، وطن آپ کے نام ہے، زمینیں آپ کی موجود ہیں، قومی شناختی کارڈ پرمستقل پتہ اب بھی یہاں کا ہے، ایک دن کے لیے بھی آئے تو قصر نہیں بلکہ اتمام کریں، جب کہ نقل مکانی کرنے والے علماء کی رائے برعکس ہے، دلیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ کے بعد مکہ مکرمہ میں قصر کرنا، بندے کا اپنے اہل وعیال کا تابع ہونا وغیرہ ہیں۔

اس سلسلے میں آپ سے درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1: آبائی وطن سے مع اہل وعیال جانے کےبعد (بغیر کسی ایمرجنسی ومجبوری کے) آئندہ بھی کبھی آکر آباد ہونے کا ارادہ نہ ہو،  تو کبھی کبار وہاں جانے سے مقیم ہوگا یامسافر؟ اور وہاں جاکر اتمام کرے گا یا قصر؟

2:بیس سال سے کم عمر نوجوانوں کی پیدائش بھی تقریباً دوسرے شہروں کی ہے، بعض نے تو اپنےوطن کو دیکھا تک نہیں، اس لیے اس جیسے شہریوں کا مستقبل میں بھی وہاں جانے کا کوئی ارادہ نہیں، اب نوجوان جن کی جائے ولادت کوئی اور علاقہ ہے، اور بوڑھے جن کی ولادت اور پرورش مذکورہ وطن میں ہوئی ہے، لیکن دوسری جگہ مستقل رہائش اختیار کرلی ہے، آبائی وطن آنے سے مسافر یا مقیم ہونے میں دونوں کا حکم ایک ہے یا الگ الگ؟

3:چند لوگ ایسے بھی ہیں، جو سردی کے چھ مہینے پنجاب میں اور گرمی کے چھ مہینے آبائی وطن (چھپر) میں گزارتے ہیں، ایسے حضرات پنجاب سے  سردیوں میں کسی کا م سے ایک دو دن کےلیے بغیر اہل وعیال کے آبائی وطن آتے ہیں تو وہ مسافر ہوں گے یا مقیم؟

4:کچھ حضرات ایسے ہیں کہ خود تو علاقہ چھوڑ کر روزگار اور ملازمت کے سلسلے میں بیوی بچوں کے ساتھ پنجاب اور سندھ میں آباد ہوگئے ہیں، جب کہ ان کے بوڑھے ماں باپ اور ایک یا دو بھائی آبائی وطن (چھپر) میں رہائش پذیر ہیں، ان کی زیارت و ملاقات کے لیے سال میں  ایک دد دفعہ اکیلے بیوی بچوں کے بغیر  آناجانا رہتا ہے، جس طرح بیوی بچوں کے ساتھ خود کو مقیم تصور کرتے ہیں، اسی طرح والدین اور بھائیوں کے ساتھ بھی خود کو مقیم خیال کرتے ہیں، آیا شرعاً وہ مقیم ہیں یا مسافر؟ یعنی قصر کریں گے یا اتمام؟

5: مسئلے کا حکم جاننے کے بعد بھی جو حضرات جان بوجھ کر اتمام کرتے ہیں ان کے نمازوں کا کیاحکم ہے؟

برائے کرم مذکورہ مسئلہ نے علاقے میں نزاع کی صورت اختیار کرلی ہے، الیکشن یا کسی اور موقع پر جب لوگ آبائی وطن آتے ہیں، تو بعض اتمام کرتےہیں بعض قصر، جس کی وجہ سے بحث ومباحثہ اور جھگڑے تک نوبت پہنچتی ہے،یہاں تک کہ بعض بزرگ لوگ تو کہتے ہیں کہ جب آپ یہاں مسافر ہیں، تو یہ آپ کا وطن نہیں رہا آپ یہاں اپنی جائیداد سے دستبردار ہوجائیں اور ہمیں تصرف کا حق دے۔

برائے مہربانی مفصل مدلل جواب عنایت فرماکر رہنمائی فرمائیں۔

جواب

جواب  سے قبل چند باتیں بطورِ تمہید کے  سمجھ لینا ضروری ہے۔

(الف)  وطن اصلی اور وطن اقامت کی تعریف :۔ وطن اصلی وہ مقام ہے جہاں انسان کی  پیدائش ہوئی ہواور وہاں رہائش پذیر بھی ہو  یاجہاں اس نے شادی کی ہو  یا جہاں پرمستقل رہنے کا ارادہ ہو ، اور وطن اقامت:وہ جگہ ہے،جہاں پر انسان کا  پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کا ارادہ ہو، مستقل رہنے کا ارادہ نہ ہو اور وہ وطن اصلی بھی نہ ہو۔

(ب) قصر اور اتمام کا دار ومدار نہ تو زمینوں اور جائیداد  کی موجودگی پر ہے، نہ گھر کی موجودگی پر ہے، اور نہ شناختی کارڈ کے مستقل پتہ پر ہے، بلکہ قصر واتمام کا دار ومدار وطن اصلی اور وطن اقامت پر ہے،یعنی جب کوئی بندہ وطن اصلی سے شرعی مسافت کے بقدر سفر کے لیے نکلے اور کسی ایک مقام پر پندرہ دن سے زیادہ  ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، تو وہ قصر کرتا رہے گا،جب تک کہ وہ وطن اصلی  واپس نہ لوٹے اور جیسے ہی وطن اصلی واپس لوٹے گا تو دوبارہ اتمام کرےگا، تاہم اگر کوئی  بندہ وطن اصلی سے شرعی مسافت کے بقدر سفر کےلیے نکالا لیکن کسی ایک جگہ پر پندرہ دن سے زائد  ٹھہرنے کا  ارادہ ہے تو وہ وہاں پر اتمام کرے گا قصر نہیں کرےگا، نیز اگر کوئی آدمی اپنے آبائی وطن کو چھوڑ  مستقل طور پر دوسری جگہ پر رہائش اختیار کرے،تو وہی رہائش والا مقام اس کا وطن اصلی بن جائے گا، اور جب وہ اپنے آبائی وطن پندرہ دن سے کم کے ارادے سے آئے گا تو وہ مسافر شمار ہوکر قصر کرے گا ۔

(ج) قصر اللہ  تعالی کی طرف سے بندے کے لیے ایک سہولت ہے،  لاعلمی کی وجہ سےاس میں  بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اس کو جائیداد سے بے دخلی کا سبب بنانا چاہیے،  بلکہ جو بھی مسئلہ در پیش ہو ،  اس کے بارے میں کسی مستند مفتی یامستند  دار الافتاء  سے رہنمائی حاصل کرکے اس پربلا چوں چراں عمل کرنا چاہیے، تاکہ لڑائی جھگڑے کا سبب نہ بنے۔

تمہید کے بعد سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

1:اگر کوئی آدمی اپنےاہل وعیال سمیت اپنے آبائی وطن کو مستقل طور پر  چھوڑ کرشرعی مسافت کے بقدر  دور جاکردوسرے مقام پر مستقل رہائش پذیر ہوجائےاور آئندہ پہلے والے وطن اصلی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کاکوئی ارادہ نہ ہو(یعنی دوسری جگہ کو وطن اصلی بنالے) تو اس کا آبائی وطن اس  کا وطن اصلی نہیں رہتا،  بلکہ اب اس کا وطن اصلی  وہی ہوگا، جہاں پر اس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہائش اختیار کی ہے، لہٰذا اگر یہی شخص کبھی کبھی آبائی وطن جاتاہو اور وہاں پر پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں قصر کرے گا اتمام نہیں کرےگا۔

2: جس کی پیدائش دوسرے شہر کی ہے یا پیدائش تو آبائی وطن کی ہے لیکن آبائی وطن کو بالکلیہ چھوڑ کر  دوسرے شہر میں منتقل ہوگیا ہے اور وہاں پر مستقل رہائش اختیار کی ہے،تو دونوں کا ایک ہی حکم ہے، یعنی دونوں جب آبائی وطن آئیں گے، اور پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہوگا، تو وہ قصرکریں گے اتمام جائز نہیں۔

3: ایسے لوگ جو سردی کے چھ مہینے پنجاب اور گرمی کے چھ مہینے آبائی وطن(چھپر) میں گزارتے ہیں، تو ان کے لیے دونوں مقامات وطن اصلی ہیں، لہٰذا  اگر وہ لوگ سردی میں ایک دو دن کے لیے آبائی وطن   آتے ہیں تو وہ وہاں پر اتمام کریں گے۔

4: ایسے لوگ جنہوں نے آبائی وطن  کو چھوڑدیاہے اور واپس آکر آباد ہونے کا ارادہ نہ ہو  اور  اپنے اہل وعیال کے ساتھ پنجاب یا سندھ میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرچکے ہوں، تو وہ جب اپنے والدین یا بھائیوں کے پاس آبائی وطن آئیں گےاور پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہو گا،تو  وہ قصر کریں گے، اور اگر انہوں نے آبائی وطن کو مستقل طور پر نہ چھوڑ ا ہو بلکہ صرف ملازمت کے سلسلے میں کچھ عرصہ کے لیے وہاں مقیم ہو، مستقبل میں کسی بھی وقت واپس آنے کا ارادہ ہو، تو آبائی وطن ان کا وطن اصلی ہے، لہٰذا جب بھی وہ آئیں گے چاہے دو تین دن کے لیے کیوں نہ ہو، وہاں پر مکمل نماز پڑھیں گے۔

5: جس شخص پر قصر لازم تھا اور اس  نے اتمام کرلیا،تواب اگر اس نے یہ نمازیں باجماعت کسی مقیم امام کی اقتداء میں ادا کی ہیں تو اس کی نمازیں ادا ہو گئی ہیں ، انفرادی نماز میں یہ تفصیل ہے کہ اگر     دو رکعت کے بعد   قعدہ کیا  ہو  تو اس شخص کا فریضہ تو اس کے ذمہ سے ساقط  ہوگیا ،  لیکن خلاف سنت ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہوا ،اس پر توبہ واستغفار کرے ،اور آئندہ ایسا ہر گز نہ کرے،  اور اگرکسی نماز میں دو رکعت کے بعد قعدہ  رہ گیا ہو ، سجدے سے سیدھا تیسری رکعت کےلیے کھڑا ہوگیاہو ، تو اس کی یہ نماز فاسد ہوگئی ،اگرچہ آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا ہو ،  ایسی صورت میں اس شخص پر اس نماز کی   قضاء لازم ہوگی، اور یہ قصر کے ساتھ ادا کی جائے گی۔  

مسند احمد میں ہے:

حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي ذباب، عن أبيه:أن عثمان بن عفان صلى بمنى أربع ركعات، فأنكره الناس عليه، فقال: يا أيها الناس، إني تأهلت بمكة منذ قدمت، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من تأهل في بلد فليصل صلاة المقيم "

(مسند عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ:ج،1:ص،496:رقم،443:ط،مؤسسۃ الرسالۃ)

الدر المختار میں ہے:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته۔

وفی الرد:

(قوله أو تأهله)۔۔۔ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. اهـ. (قوله أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر:ج،2:ص،131:ط، سعید)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر. (ووطن) السكنى: وهو أن يقصد الإنسان المقام في غير بلدته أقل من خمسة عشر يوما ۔۔۔ فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعا، وأصله أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمهاجرين من أصحابه - رضي الله عنهم - كانوا من أهل مكة وكان لهم بها أوطان أصلية، ثم لما هاجروا وتوطنوا بالمدينة وجعلوها دارا لأنفسهم انتقض وطنهم الأصلي بمكة، حتى كانوا إذا أتوا مكة يصلون صلاة المسافرين، حتى قال النبي - صلى الله عليه وسلم - حين صلى بهم: «أتموا يا أهل مكة صلاتكم فإنا قوم سفر» ؛ ولأن الشيء جاز أن ينسخ بمثله، ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدا أو أكثر من ذلك بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى أنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله فيصير مقيما من غير نية الإقامة۔"

(كتاب الصلاة، فصل مایصیرالمسافر بہ مقیماً:ج،1:ص، 103:ط،سعید)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال أصحابنا رحمهم الله: فرض المسافر في كل صلاة رباعية ركعتان۔۔۔حتى أن عند علمائنا رحمهم الله إذا صلى المسافر أربعاً ولم يقعد على رأس الركعتين فسدت صلاته، لانشغاله بالنفل قبل إكمال الفرض، وإن كان قعد تمت صلاته وهو مسيء لخروجه عن الفرض ودخوله في النفل لا على وجه المسنون۔۔۔حجة علمائنا رحمهم الله حديث عائشة رضي الله عنها: «فرضت الصلاة في الأصل ركعتين إلا المغرب، فإنها وتر ثم زيدت في الحضر وأقرت في السفر» وعن ابن عمررضي الله عنهما أنه قال: «صلاة المسافر ركعتان تمام غير قصر» يتكلم على لسان عليه السلام۔"

(کتاب الصلاۃ،‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر:ج،2:ص،21:ط،دار الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں