آج سے تقریباً 36،35 سال پہلے مسجد بنائی گئی تھی،اس وقت مسجد کے قریب آبادی نہیں تھی، صرف دو گھر تھے، اب اس مسجد کے قریب تقریباً گیارہ گھر ہیں، ہم اس مسجد کو چھوڑ کر دوسری جگہ نئی مسجد بنانا چاہتے ہیں، محلہ کی مسجد تقریباً ساڑھے تین ہزار اسکوائر فٹ ہے، محلہ کے لوگوں کے لیے تنگ ہے، اس میں وضوخانہ نہیں ہے، تبلیغی حضرات آتے ہیں ان کے لیے کوئی کمرہ وغیرہ نہیں ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ ہم اس مسجد کو چھوڑ کر دوسری جگہ نئی مسجد بنا سکتے ہیں؟ جب کہ دوسری جگہ بڑی ہے، وضوخانہ اور دیگر تعمیرات بھی کی جاسکتی ہے، اگر نئی مسجد دوسری جگہ بناسکتے ہیں تو سابقہ مسجد کا کیا حکم ہوگا؟ یعنی سابقہ مسجد کی جگہ میں قبرستان، یا مدرسہ بناسکتے ہیں یا نہیں؟ اور اس مسجد کے سامان کا کیا حکم ہوگا؟ کیا اس مسجد کے سامان کو دوسری جگہ نئی مسجد بنانے میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟
واضح رہے کہ ایک مرتبہ مسجد بننے کے بعد وہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی، اس کو ڈھا کر قبرستان یا مدرسہ وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے اگر مذکورہ مسجد میں نمازیوں کے لیے جگہ تنگ پڑ رہی ہو تو مسجد کی آس پاس کی زمین یا گھر خرید کراسے مسجد میں شامل کر کےاس کی ہی توسیع کر دی جائے، اگر مسجد بڑھانے کی کوئی صورت نہ ہوسکے تو پھر اس مسجد کو برقرار رکھ کر دوسری مسجد بنائی جائے، نيز پہلی مسجد کا سامان جو خاص اس مسجد کے لیے وقف کیا گیا ہو اسے دوسری مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے،تاہم اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ مسجد میں اس کی ضرورت نہ ہو اور بے کار پڑے رہنے سے ضائع ہونےکا اندیشہ ہے، تو اسے دوسری مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
(1)"قال في التتارخانية إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه وفي جامع الفتوى إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق. اهـ."
(2)"ولا يجوز للقيم أن يجعل شيئا من المسجد مستغلا ولا مسكنا وقدمناه ولم يذكر المصنف حكم المسجد بعد خرابه وقد اختلف فيه الشيخان فقال محمد إذا خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر أو لخراب القرية أو لم يخرب لكن خربت القرية بنقل أهلها واستغنوا عنه فإنه يعود إلى ملك الواقف أو ورثته.وقال أبو يوسف هو مسجد أبدا إلى قيام الساعة لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى كذا في الحاوي القدسي وفي المجتبى وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه قال وأما الحصر والقناديل فالصحيح من مذهب أبي يوسف أنه لا يعود إلى ملك متخذه بل يحول إلى مسجد آخر أو يبيعه قيم المسجد للمسجد وفي الخلاصة."
(کتاب الوقف،فصل اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف،272/5،دار الكتاب الإسلامى)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101621
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن