فجر کی نماز میں امام نے سورۂ یوسف کی ابتدائی آیات {وان كنت من قبله لمن الغافلین} کی جگہ ’’وان کنت لفی ضلل مبین‘‘ پڑھا، کیا نماز ہوگئی یا نماز کا اعادہ کریں؟
واضح رہے کہ اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگرامام نے نماز میں {وان كنت من قبله لمن الغافلین} کی جگہ ’’وان کنت لفی ضلل مبین‘‘ پڑھا ہو اور اسی رکعت میں اس غلطی کی اصلاح نہ کی ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی، اس لیے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوگیا ہے۔
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة".
(الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة".
(حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144110201025
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن