بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پتھر اور ستاروں کی تاثیر کا اعتقاد رکھنے والوں کو کیا بتائیں؟


سوال

ہمارا جواہرات نگینوں کا کام ہے تو  ہماری دکان پر لوگ آتے ہیں کہ ستاروں کی مدد سے یا نام کے ذریعے ہمارا  پتھر نکال دیں،  ہمارا تو یقین ہے کہ ان پتھروں سے کچھ نہیں ہوتا،  صرف شوق کے لیے پہنتے ہیں،  اب آپ مشورہ دیں کہ ان کو کیا کہا کریں؟

جواب

      واضح رہے کہ اس کائنات میں پیش آنے والا ہر چھوٹا بڑا واقعہ اللہ تعالی کے حکم اور منشا کے مطابق ہوتاہے، اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہوتا، ہم کوتاہ فہموں کو سمجھانے اور کائنات کا مرتب نظام چلانے اور دیگر بہت سی حکمتوں  کے تحت  اللہ رب العزت نے ہمارے روزمرہ کے معاملات کو ظاہری  اسباب کے  ساتھ  جوڑا ہے،  (جن حکمتوں کا حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے،) روٹی بھوک  مٹاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، آگ حرارت کا سامان مہیا کرتی ہے  وغیرہ وغیرہ، ان تمام اسباب کے پیچھے حقیقی مؤثر ذات  اللہ تعالی کی ہے، جو اس تمام نظام کو چلا رہی ہے، کسی ظاہری سبب یا شے کا اس نظام کو چلانے اور اس پر اثر انداز ہونے میں  بذاتِ خودکوئی دخل نہیں۔

 ستارے، سیارے اور  ہاتھوں  کی لکیروں کا انسانی زندگی کے بنانے یا بگاڑنے میں کوئی اثر نہیں، اسی طرح مخصوص پتھر یا مخصوص اعداد بھی  انسانی زندگی پراثر انداز نہیں ہوتے، انسان کی زندگی مبارک یا نامبارک ہونے میں اس کے اعمال کا دخل ہے، نیک اور اچھے اعمال انسان کی مبارک زندگی اور برے  اعمال ناخوش گوار  زندگی کا باعث ہوتے ہیں،   پتھروں یا اعداد کو اثر انداز سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو  پتھر ہے، نفع پہنچا سکتا ہے  اور  نہ نقصان، اگر  میں نے رسولِ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا  تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا، نئے مسلمان ہونے والے لوگوں  کے دلوں میں پتھروں کی تاثیر کا جاہلی عقیدہ مٹانے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ان کے سامنے حجر اسود سےاس انداز میں گویا ہوئے۔

لہذا  آپ کے پاس ایسے لوگ آئیں تو انہیں اسلامی عقیدے سے رو شناس کرائیے، اور  اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرکے صحیح عقیدہ رکھنےکی دعوت  دیں۔

 شرح مسلم نووی میں ہے:

"وأما قول عمر رضي الله عنه: لقد علمت أنك حجر وأنى لأعلم أنك حجر، وأنت لاتضر ولاتنفع، فأراد به بيان الحث على الاقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم في تقبيله ونبه على أنه أولا الاقتداء به لما فعله، وإنما قال: وأنك لاتضر ولاتنفع؛ لئلايغتر بعض قريبى  العهد بالاسلام الذين كانوا ألفوا عبادة الأحجار وتعظيماً ورجاء نفعها وخوف الضر بالتقصير في تعظيمها، وكان العهد قريباً بذلك، فخاف عمر رضي الله عنه أن يراه بعضهم يقبله ويعتنى به فيشتبه عليه، فبين أنه لايضر ولاينفع بذاته، وإن كان امتثال ما شرع فيه ينفع بالجزاء والثواب، فمعناه أنه لا قدرة له على نفع ولا ضر، وأنه حجر مخلوق كباقي المخلوقات التي لاتضر ولاتنفع، وأشاع عمر هذا في الموسم ليشهد في البلدان ويحفظه عنه أهل الموسم المختلفوا الأوطان والله أعلم."

(شرح النووي على صحيح المسلم، كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر (۱/ ۴۱۳) ط:قديمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں