بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد یا عورت کا دوسرے کو شہوت سے چھونے سے اصول و فروع حرام ہونے کی تفصیل


سوال

 کسی عورت نے جوانی کی خواہش کے ساتھ بد نیتی سے کسی مرد کو ہاتھ لگایا تو اب اس عورت کی ماں اور اولاد کو اس مرد سے نکاح کرنا جائز نہیں ، اس طرح اگر کسی مرد نے کسی عورت کو ہاتھ لگایا تو وہ مرد اس کی ماں اور اولاد پر حرام ہوگیا؟

جواب

اگر سائل کا مقصد حرمتِ مصاہرت ے مسئلے کی وضاحت پوچھنا ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو شہوت سے چھوتا  ہے یا عورت مرد کو شہوت سے چھوتی ہے  تو اس دونوں  کے اصول (والدہ وغیرہ) و فروع (بیٹی وغیرہ) اُس ایک دوسرے  پر حرام ہونے کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:

1.وہ عورت جسے شہوت سے چھوا گیا ہو وہ  مشتہاۃ (قابلِ شہوت) ہو، یعنی کم از کم نو سال کی ہو ۔

2.مس (چھونے) کے وقت  ہی شہوت پائی جائے ، اگر اس وقت شہوت نہیں تھی، بلکہ بعد میں شہوت ابھری تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

3.شہوت پیدا ہونے کی کوئی معتبر علامت پائی جائے، اور اگر پہلے سے شہوت موجود ہو تو چھوتے وقت یا شرم گاہ کو دیکھتے وقت شہوت مزید بڑھ جائے۔  بصورتِ دیگر حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ اور مرد میں شہوت کی علامت یہ ہے کہ چھوتے وقت اس کے آلۂ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے اور اگر انتشار پہلے سے تھا تو چھوتے وقت اس میں زیادتی ہوجائے۔ اور عورت میں شہوت کی علامت یہ ہے کہ اس کے قلب میں تلذذ (مزہ) پیدا ہوجائے، اگر تلذذ پہلے سے تھا تو اس میں اضافہ ہوجائے۔

4.شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو اور اگر درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہوتو  اتناباریک ہوکہ جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو،  ورنہ حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

5.شہوت کے ساتھ چھونے، بوسہ دینے یا شرم گاہ کو دیکھنے کی وجہ سے انزال نہ ہوا ہو ، اگر مذکورہ صورتوں میں انزال ہوجائے تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج3، ص32-33، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101742

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں