بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت: من تطبب ولم یعلم منہ الطب کی تحقیق و تشریح


سوال

 درج ذیل حدیث’’ ابو داود شریف ‘‘یا کسی اور کتاب میں موجود ہے؟

’’طب کو اچھی طرح نہ جاننے کے باوجود جس نے علاج کیا اور اس سلسلے میں وہ متعارف نہیں تھا تو وہ کسی بھی نقصان کا ذمہ دار ہوگا‘‘۔حدیث کےعربی الفاظ یہ ہیں:"مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ يُعْلَمْ مِنْهُ الطِّبُّ قَبْلَ ذَلِكَ وَهُوَ ضَامِنٌ".نیز یہ تفصیل بھی بتا دیں کہ اس سے کیا مراد ہے ؟

جواب

سوال میں جس حدیث کے متعلق دریافت کیا  گیا ہے، یہ حدیث "سنن أبي داود"، "سنن ابن ماجه"، "سنن النسائي"ودیگرکتبِ حدیث میں مذکورہے،"سنن النسائي"و"سنن ابن ماجه" کی حدیث کے الفاظ    درج ذیل ہیں:

"مَن تطبَّب ولم يُعلم منه طِبٌّ قبل ذلك فهو ضامنٌ".

(سنن ابن ماجه، كتاب الطب، باب من تطبب ولم منه طب، 2/1148، رقم الحديث:3466، ط: دار إحياء الكتب العربية/سنن النسائي، كتاب القسامة، صفة شبه العمد ... إلخ، 8/52، رقم الحديث:4830و4831، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)

ترجمہ:

’’جو شخص  اپنے آپ کو طبیب  ظاہر کرکے علاج کرے، حالاں کہ اس سے پہلے اس کا طبیب ہونا معلوم نہ ہو (یعنی وہ  فنِ طب  کی مہارت میں مشہور نہ ہو اور علاج کرے،پھر اس کے علاج سے مریض کا کوئی عضو تلف ہوجائے ،یا اس کا انتقال ہوجائے)تو وه(مریض کا)ضامن ہوگا‘‘۔ 

البتہ"سنن أبي داود"کی حدیث میں"قبلَ ذك"کے الفاظ نہیں ہیں، جودرج ذیل ہے:

"مَن تطبَّب ولم يُعلم منه طبٌّ فهو ضامنٌ".

(سنن أبي داود، أول كتاب الديات، باب في من تطبب بغير علم فأعنت، 6/643، رقم الحديث:4586، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:

’’جو شخص  اپنے آپ کو طبیب  ظاہر کرکے علاج کرے حالاں کہ اس کا طبیب ہونا معلوم نہ ہو(یعنی وہ  فنِ طب  کی مہارت میں مشہور نہ ہو اور علاج کرے،پھر اس کے علاج سے مریض کا کوئی عضو تلف ہوجائے ،یا اس کا انتقال ہوجائے)تو وه(مریض کا)ضامن ہوگا‘‘۔ 

۲۔علامہ مناوی رحمہ اللہ "التيسير بشرح الجامع الصغير"میں   مذکور ہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"(د. ن. ه. ك عن ابن عمرو) بن العاص و إسنادُه صحيحٌ".

ترجمہ:

’’اس روایت کو امام ابوداود،  امام نسائی، امام ابنِ ماجہ اور امام حاکم ،(عبد اللہ ) بن عمر و بن عاص رضی اللہ سے (روایت کرتے ہیں )اور اس روایت  کی سند صحیح ہے‘‘۔

(التيسير بشرح الجامع الصغير، حرف الميم، 2/410، ط:مكتبة الإمام الشافعي-الرياض)

اور علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ "عون المعبود شرح سنن أبي داود"میں مذکورہ حدیث اوراس کی تشریح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"(قال نصرُ) بنُ عاصمٍ في روايته: عن الوليد بن مُسلمٍ (حدّثني بنُ جُريج) وأمّا محمّد بنُ الصبّاح فقال: عن بن جُريج . (لم يروِه) أي الحديثَ مسنداً (إلاّ الوليدُ) بنُ مُسلمٍ (لا ندرِي أصحيحٌ هو أم لا) أي لا ندري هو صحيحٌ مسندٌ أم لا. ورواه الدّارقطنيُّ من طريقين عن عبد الله بن عمرو وقال لم يُسنده عن بن جريج غيرَ الوليد بن مسلمٍ، وغيرُه يرويه مرسلاً، وأخرجه الحاكمُ في المستدرك في الطب وقال: صحيحٌ، وأقرّه الذهبيُّ، قاله المناويُّ . قال المنذريُّ: وأخرجه النسائيُّ مُسنداً ومُنقطعاً، وأخرجه بنُ ماجه انتهى".

ترجمہ:

’’(حدیث کے  ایک راوی) نصر بن عاصم اس  کی روایت میں (سند بیان کرتے ہوئے)عن الوليدِ بنِ مُسلمٍ حدّثني بنُ جُريجٍکہتےہیں(یعنی ولید بن مسلم کی ابنِ جریج سے روایت متصلاً بیان کرتے ہیں)، جب کہ (دوسرے راوی ) محمد بن صباح عن بنِ جُريجٍبیان کرتے ہیں(یعنی ولید  بن مسلم کی ابنِ جریج سے روایت مرسلاً بیان کرتے ہیں)۔(امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتےہیں): اس حدیث  کو ابنِ جریج سے صرف ولید بن مسلم متصلاَ  روایت کرتے ہیں، ہمیں معلوم نہیں یہ متصل طریق صحیح ہے یانہیں ؟!۔علامہ مناوی رحمہ اللہ ("فيض القدير شرح الجامع الصغير")میں لکھتے ہیں:دارقطنی رحمہ اللہ اسے  عبد اللہ بن عمرو(بن عاص) رضی اللہ عنہ سے(مرسل اور متصل )دونوں طریق سے روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں:اسے ابنِ جریج سے صرف ولید بن مسلم نے متصلاَ روایت کیا ہے، (ابنِ جریج کے )دیگر تلامذہ  اسے مرسلاَ روایت کرتے ہیں۔امام حاکم رحمہ اللہ    "المستدرك"،"كتاب الطب"میں اس کی تخریج کرنے کے بعد( اس  کا حکم بیان کرتے ہوئے) لکھتےہیں:یہ روایت صحیح ہے۔اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے(بھی "تلخيص المستدرك")اس حکم کو برقرار رکھاہے۔(حافظ عبد العظیم) منذری رحمہ اللہ ("مختصر سنن أبي داود للمنذري"میں) لکھتےہیں: امام نسائی رحمہ اللہ نے متصلاً اور مرسلاً(دونوں طرح) اس کی تخریج کی ہے،اور امام ابنِ ماجہ رحمہ اللہ نے(مرسلاً) اس کی تخریج کی ہے‘‘۔

(عون المعبود، كتاب الديات، باب فيمن تطبب ولا يعلم منه طب فأعنت،  12/215، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

۳۔واضح رہے کہ طبیب کی دو قسمیں ہیں:۱۔حاذق،۲۔جاہل۔

طبیبِ حاذق کا حکم :

طبیبِ حاذق کے لیے  علاج کرنا جائز ہے۔اور اس پر ضمان  واجب نہ ہونے کےلیے دو شرائط ہیں:

۱۔مریض،یا اس کےولی نے علاج کی اجازت دی ہو۔

۲۔ علاج طب کے اصولوں  کے مطابق ہو۔

اگر ان میں سے کوئی   ایک شرط مفقود ہو اور مریض کا نقصان ہوجائے تو اس پر ضمان واجب ہوگا۔

ضمان کے متعلق تفصیل:

 اگر مریض ،یا اس کے ولی کی اجازت کے بغیر علاج کیا تو پورا ضمان  واجب ہوگا۔اور اگر اجاز ت سے علاج کیا تو اس صورت میں کچھ تفصیل ہے:

۱۔علاج کا پورا طریقہ اور عمل، طب کے اصولوں کے خلاف ہو ، اس صورت میں اگرمریض ہلاک ہو گیا  تو پوری دیت لاز ہوگی ،اور اگر  کوئی عضو تلف ہوگیاتو  فقہاء کرام رحمہم اللہ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق  ضمان  واجب ہوگا۔

۲۔علاج کا کچھ  طریقہ اورعمل ،طب کے اصولوں کے مطابق ہو اور کچھ اس کے خلاف ہو  ، اس صورت میں  اگر مریض ہلاک ہوگیا تو نصف دیت  واجب ہوگی،اور اگر  اس کاکوئی عضوتلف ہوگیا توپورا ضمان واجب ہوگا،اور اگر عضو میں کوئی نقصان آیا تو نقصان کے بقدر ضمان آئے گا۔

طبیبِ جاہل کا حکم:

طبیبِ جاہل کے لیے  علاج کرناجائز نہیں ۔ تاہم اگر وہ علاج کرےتوہرصورت میں اس پر پورا ضمان واجب ہوگا، خواہ وہ طب کے اصولوں کے مطابق علاج کرےیا ان کے خلاف،خواہ مریض ،یا اس کے ولی کی اجازت سے علاج کرے یا ان کی اجازت کے بغیر علاج کرے۔

مذکورہ بالا تمام صورتوں  میں دیت ڈاکٹر،یاطبیب  کے عاقلہ پر واجب  ہوگی۔

وجوبٍِ ضمان کی صورت:

ضمان اس صورت میں واجب ہوگاجب کہ علاج میں ڈاکٹر ،یاطبیب کا اپنا ہاتھ استعمال ہواہو، مثلاً:آپریشن کیا ہو، ایاانجیکشن لگایاہو،یا اپنے ہاتھ سے دوائی پلائی ہو۔اگر دوا بناکر  ،یالکھ مریض کو دی اور مریض نے خود اپنے ہاتھ سے دوا پی  تو اس صورت میں ضمان واجب نہیں ہوگا۔البتہ تعزیر ہرصورت میں واجب ہوگی۔

"معالم السنن للخطابي"میں ہے:

"قال الشيخ: لا أعلمُ خلافاً في المعالج إذا تعدّى فتلِف المريضَ كان ضامناً والمتعاطي علماً أو عملاً لا يعرفه متعدّي، فإذا تولّد مِن فعلِه التلف ضَمِن الديةَ وسقط عنه القودُ؛ لأنّه لا يستبدُّ بذلك دون إذن المريض، وجنايةُ الطبيب في قول عامّة الفُقهاء على عاقِلته".

 (كتاب الديات، ومن باب فيمن تطبب ولا يعلم منه طب، 4/39، ط: المطبعة العلمية - حلب)

"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:

"وعن عمرو بنِ شُعيبٍ عن أبيه عن جدّه أنّ رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: (مَن تطبَّب ولم يُعلم منه طبٌّ فهو ضامنٌ) . رواه أبو داودُ والنسائيُّ

قال: (من تطبب) : بتشديد الموحدة الأولى أي تعاطى علم الطب وعالج مريضا (ولم يعلم منه طب) : أي معالجة صحيحة غالبة على الخطأ فأخطأ في طبه وأتلف شيئا من المريض (فهو ضامن) : قال بعض علمائنا من الشرح: لأنه تولد من فعله الهلاك وهو متعد فيه، إذ لا يعرف ذلك فتكون جنايته مضمونة على عاقلته. وقال ابن الملك قوله: لم يعلم منه طب أي لم يكن مشهورا به فمات المريض من فعله، فهو ضامن أي تضمن عاقلته الدية اتفاقا ولا قود عليه، لأنه لا يستبد بذلك دون إذن المريض فيكون حكمه حكم الخطأ. وقال الخطابي: لا أعلم خلافا في أن المعالج إذا تعدى فتلف المريض كان ضامنا. وجناية الطبيب عند عامة الفقهاء على العاقلة".

( كتاب الديات، 6/2293، رقم الحدیث:3504، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان) 

"زاد المعاد في هدي خير العباد"میں ہے:

"[الثاني مطبب جاهل باشرت يده من يطبه فتلف به]

فصل القسم الثاني: مطبب جاهل باشرت يده من يطبه، فتلف به، فهذا إن علم المجني عليه أنه جاهل لا علم له، وأذن له في طبه لم يضمن، ولا تخالف هذه الصورة ظاهر الحديث، فإن السياق وقوة الكلام يدل على أنه غر العليل، وأوهمه أنه طبيب، وليس كذلك، وإن ظن المريض أنه طبيب، وأذن له في طبه لأجل معرفته، ضمن الطبيب ما جنت يده، وكذلك إن وصف له دواء يستعمله، والعليل يظن أنه وصفه لمعرفته وحذقه فتلف به، ضمنه، والحديث ظاهر فيه أو صريح".

( أقسام الأطباء من جهة إتلاف الأعضاء، 4/129، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت)

"أحسن الفتاوى"میں ہے:

’’سوال:

طبیب یا ڈاکٹر کے علاج سے اگر کوئی مرجائے یا اس کا کوئی عضو تلف ہوجائے تو طبیب یا ڈاکٹر پر ضمان واجب ہوگا یا نہیں؟

جواب:

طبیب کی دو قسمیں ہیں:۱۔حاذق۔ ۲۔جاہل۔

طبیب حاذق کا حکم:

اس کے لیے علاج کرنا جائز ہے اور اس سے رفع ضمان کے لئے دو شرائط ہیں:

۱۔ مریض یا اس کے ولی نے علاج کی اجازت دی ہو،۲۔ علاج اصول طبیہ کے مطابق ہو۔

اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو اور مریض کا نقصان ہوجائے تو ضمان واجب ہے۔

اگر بلا اذن علاج کیا تو پورا ضمان واجب ہے اور اذن سے کیا تو اس میں یہ تفصیل ہے:

۱۔ علاج کا پورا طریقہ اور عمل اصول طبیہ کے خلاف ہو تو:

اس صورت میں اگر مریض ہلاک ہوگیا تو پوری دیت لازم ہوگی اور اگر کوئی عضو تلف ہوگیا تو بحسب تفصیل فقہاء رحمہم اللہ تعالی ضمان واجب ہوگا۔

۲۔ کچھ عمل اصول طبیہ کے مطابق کیا اور کچھ اس کے خلاف تو:

اس صورت میں مریض ہلاک ہوگیا تو نصف دیت واجب ہوگی، اور اگر عضو تلف ہوگیا تو پورا ضمان واجب ہوگا، اور اگر عضو میں نقصان آیا تو موضع معتاد سے تجاوز کی وجہ سے جو نقصان ہوا اسی کی بقدر ضمان آئے گا۔

طبیب جاہل کا حکم:

اس کے لئے علاج کرنا جائز نہیں اور بہرصورت پورا ضمان واجب ہوگا، خواہ اصول طبیہ کے مطابق علاج کرے یا ان کے خلاف، مریض یا اس کے ولی کی اجازت سے علاج کرے یا بلا اجازت۔

تنبیہ:وجوب ضمان اس صورت میں ہے کہ علاج میں ڈاکٹر یا طبیب کا اپنا ہاتھ استعمال ہوا ہو، مثلا آپریشن کیا ہو یا انجیکشن لگایا ہو یا اپنے ہاتھ سے دواء پلائی ہو، اگر دواء بنا کر یا لکھ کر مریض کو دے دی، مریض نے خود اپنے ہاتھ سے دواء پی تو ضمان واجب نہ ہوگا۔

البتہ تعزیر بہر صورت واجب ہے‘‘۔

(كتاب الجناية والضمان، ج:8، ص:517-518، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں