بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اے آئی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعہ تصاویر بنانے کا حکم


سوال

آج کل اے،آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا بڑا چرچا ہے، مثلا کچھ دن قبل سندھ کی قدیمی و تاریخی جگہ موئن جودڑو کی تصاویر اسی طرز پر بنائی گئی تھیں جو کہ قدیم معلوم ہورہی تھیں، لوگوں نے جسے بہت سراہا اور بنانے والے کو داد دی اور یہ تصاویر سوشل میڈیا پر خوب شیئر کی گئیں، دیکھا دیکھی میں لوگوں نے اسی طرز پر کئی دیگر جگہوں کی تصاویر بنائیں،خیر یہاں تک مسئلہ سمجھ میں آتاہے، لیکن کچھ دن قبل ایک شخص نے اسی کے ذریعے جہنم کی تصاویر بنا لیں،جہاں اژدھے،خاردار کانٹے،عجیب قسم کی زنجیروں میں جکڑے انسان،جہنم کی سلگتی آگ،جہنم کے دروازے سے لوگ داخل ہوتے ہوئے، الغرض مکمل ہولناک بنایا تھا، جسے دیکھ کر کچھ لوگوں نےرونے والے اور پناہ مانگنے والے تبصرے کیے، جب کہ کچھ نے جنت بنانے کی فرمائش کی، چناں چہ اسی شخص نے بعد میں قسط وار جنت کی تصاویر بنائیں، جس میں ہرے بھرے باغات،بہتی نہریں،خوبصورت عمارتیں،عمدہ جام وغیرہ یعنی جنت کی مثل بنایا تھا، جسے دیکھ کرلوگوں نے سراہا،  اب مسئلہ یہ ہےکہ شریعت اس بارے میں کیا حکم دیتی ہے؟

نوٹ: اے،آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تصاویر خوبصورت اور قدیم نظر آتی ہیں جس سے انسان اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔

جواب

آپ کا سوال کئی جہات سے جواب کا متقاضی ہے: 

1۔ AI کے ذریعہ قدیم یا غیر معروف تصاویر بنانا: واضح رہے کہ شریعت میں جاندار کی تصویر مطلقاً حرام ہے، اس میں تصویرکا مواد مٹی ہو یا سیاہی وغیرہ، تصویر  کی صفت کہ متحرک ہو یا ساکن  یا قدیم غیر معروف ہو یا جدید معروف،  آلہ تصویر ہاتھ ہو یاقلم یا  جدید ذرائع وغیرہ اور بنانے کی غرض کہ اچھا مقصد ہویا نہیں یا کوئی غرض ہی نہ ہوکسی کی بھی تخصیص نہیں کی گئی، بلکہ جاندار کی تصویر بہر حال ناجائز ہے،  حدیث شریف میں جاندار کی تصویر بنانے والوں کے متعلق سخت وعید آئی ہے کہ   "قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب (جانداروں کی  ) تصویریں  بنانے والوں کو ہوگی"، البتہ غیر جاندار کی تصویر ناجائز نہیں۔

2۔ غیبی امور کی تصویر بنانا یا منظر کشی کرنا: غیبی امور جیسا کہ جنت، جہنم اور پلِ صراط وغیرہ کی اپنی طرف سے تصاویر بنانا بھی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

3۔ سوشل میڈیا  پر تصاویر کو شیئر کرنا:سوشل میڈیا کا استعمال درست نہیں، اس لیے کہ عموماً اس کے استعمال میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو ہی جاتا ہے، جیسا کہ اس پر جاندار کی تصویر کا استعمال کہ اس کا دیکھنا، اس کا لگانا اور اس کا آگے دوسروں کو بھیجنا (شیئرکرنا)، جھوٹی خبریں پھیلانا، دین کے متعلق غیر مستند اور من گھڑت باتوں کا پھیلانا وغیرہ وغیرہ، اور سوشل میڈیا کا استعمال غیر شرعی امور کے ساتھ جائز نہیں، اور اگر یہ غیر شرعی امور پر مشتمل نہ ہو ،بلکہ وقت کے ضیاع کا سبب بن رہا ہو تو بھی اس کا استعمال مباح نہیں۔  

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا الحميدي: حدثنا سفيان: حدثنا الأعمش، عن مسلم قال: كنا مع مسروق في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون)".

(كتاب اللباس، باب: عذاب المصورين يوم القيامة، 2658/4، ط: البشرى)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعید بن أبي الحسن قال: كنت عند ابن عباس إذ جاءه رجل، فقال: يا ابن عباس! إني رجل إنما معيشتي من صنعة يدي، وإني أصنع هذه التصاوير، فقال ابن عباس: لا أحدثك إلا ماسمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعته يقول: من صوّر صورةً فإن الله معذّبه حتى ينفخ فيه الروح وليس بنافخ فيها أبداً. فربا الرجل ربوةً شديدةً واصفرّ وجهه. فقال: ويحك! إن أبيت إلا أن تصنع فعليك بهذا الشجر وكل شيء ليس فيه روح. رواه البخاري." 

(مشکاة المصابیح، باب التصاویر، ص:386 ط:قدیمی)

ترجمہ: سعید بن ابو الحسن روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: اے ابن عباس! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میرا معاشی گزران ہاتھ کی محنت سے ہوتاہے اور میں یہ (جان دارکی) تصاویر بناتاہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں وہی بات سناؤں گا جو  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، (یعنی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہوں گا)  آپ ﷺ کو میں نے فرماتے ہوئے سنا: جو شخص (جان دار کی) تصویر بنائے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عذاب دیں گے، یہاں تک کہ وہ اس تصویر میں جان / روح نہ ڈال دے، اور وہ اس (تصویر) میں کبھی جان نہیں ڈال پائے گا۔ یہ حدیث سن کر اس شخص نے ایک بڑا اور اونچا سانس لیا اور اس کا چہرہ زرد پڑ گیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تیرا ناس ہو! اگر تصویر بنانی ہی ہے (یعنی اگر تمہارا گزران نہیں ہوتا) تو ان درختوں کی تصاویر بناؤ اور ہر اس چیز کی جس میں روح نہ ہو۔ (بخاری)

 فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام ‌النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 647/1، ط: سعيد)

ایضاً: 

"وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى".

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 650/1، ط: سعيد)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (سورة النمل: 65)

”آپ کہہ دیجیئے کہ جتنی مخلوقات آسمان اور زمین (یعنی عالم) میں موجود ہیں (ان میں سے) کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا بجز الله تعالیٰ کے اور (اسی وجہ سے) ان (مخلوقات) کو یہ خبر نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کیے جاویں گے“۔ (بیان القرآن)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"قال: ويكره‌‌ اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو؛ لأنه إن قامر بها، فالميسر حرام بالنص وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر بها، فهو عبث ولهو، وقال عليه الصلاة والسلام: ((لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله))____م: (وكل لهو) ش: أي ويكره كل اللعب بكل اللهو، وهذا يعم سائر أنواع اللعب والملاهي ما خلا الأشياء الثلاثة التي استثناها في الحديث".

(كتاب الكراهية، مسائل متفرقة، 12/ 249، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں