حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اعمال قرانی میں لکھا ہے کہ جس عورت کو حمل نہیں ٹھہرتا ہوتو وہ تعویز لکھ کر ناف کے نیچے باندھےاور اس کو کسی حال میں نہ کھولے، نہ ہمبستری کے وقت، نہ غسل کے وقت۔ تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جائز ہے۔
واضح رہے کہ وظائف کی مستند کتابوں میں جو وظائف و عملیات درج ہیں ان کا مدار بزرگوں کے تجربات پر ہے، جن سے بوقتِ ضرورت فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے اور تجربات سے ان کا مفید ہونا ثابت ہے، ان وظائف کو پڑھنا اور ان پر عمل کرنا شرعاً درست ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.
وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه» قال رضي الله عنه: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار ولا بأس بأن يشد الجنب والحائض التعاويذ على العضد إذا كانت ملفوفةً."
(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:364، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144502101189
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن