ایک شخص نے کوئی چیز مثلاً پچاس روپے کی خریدی ،اب یہ شخص اس کوفروخت کرتے وقت کس حد تک اس پر منافع رکھ سکتاہے؟کیامنافع اس کے قیمت کے برابر ہو؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے کاروبار ی لین دین میں نفع کا تعین عاقدین کی باہمی رضامندی پررکھاہے،اورخریدوفروخت میں منافع کے حوالے سے کسی قسم کی حد اورپابندی نہیں رکھی ،نفع لینے کی شرعاً کوئی حدمتعین نہیں ہے،باہمی رضامندی سے جتناچاہے نفع لے سکتے ہیں،البتہ یہ شرط ہے کہ جھوٹ نہ بولیں نہ ہی گاہک کودھوکہ دیں ،کسی کی مجبوری کاغلط فائدہ نہ اٹھائیں،متعارف نفع سے زائدلیناغبن فاحش میں آتاہے،اوریہ مروت اوراسلامی معیشت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے،لہذابازارکے متعارف نفع سے زائد نفع رکھنامناسب نہیں۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أنس بن مالك قال: «قال الناس: يا رسول الله، غلا السعر فسعر لنا. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى الله وليس أحد منكم يطالبني بمظلمة في دم ولا مال".
(كتاب التجارة، باب التسعير، ج:3، ص:286، ط:المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)
شرح المجلۃ میں ہے:
"الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها".
(كتاب البيوع، الثمن المسمى، ج:1، ص:124، ط:دار الجيل)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"المرابحة بيع بمثل الثمن الأول وزيادة ربح والتولية بيع بمثل الثمن الأول من غير زيادة شيء والوضيعة بيع بمثل الثمن الأول مع نقصان معلوم والكل جائز".
(کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة والتولية والوضيعة، ج:3، ص:160، ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101045
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن