بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کو زکاۃ دینا جب کہ اس کا شوہر صاحب نصاب ہو


سوال

 میں اپنی بہن کو زکاۃ دیناچاہتا ہوں جو کہ غریب ہے،  اب مسئلہ یہ ہے کہ میری بہن، اس کے شوہر اور اس کے بچوں نے مل کر لوگوں کی فصلوں کی کٹائی کر کے کچھ مزدوری کر لی ہے اور  کچھ  ان کی اپنی زمین ہے، جہاں سے کچھ فصل آ گئی ہے تو تھوڑے وقت یعنی ایک یا دو ماہ کے لیے ان کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت سے زیادہ رقم موجود ہے،  قرض کی ادائیگی اور ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی خریداری کے بعد وہ اس رقم کے مالک نہیں رہیں گے، یعنی ان کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت سے کم رقم رہ جائے گی اور تقریباً ایسا ہر سال ہوتاہے، جب فصلوں کی کٹائی وغیرہ ہوتی  ہے،  سال کے باقی ایام میں وہ غربت میں ہی زندگی گزارتے ہیں، تو  کیا ایسے حالات میں میں اپنی بہن کو زکاۃ دے سکتا ہوں؛ کیوں کہ میں نے ماہ رمضان میں زکاۃ دینی ہوتی ہے، اور فصلوں کی کٹائی بھی آج کل تقریباً اسی موسم میں ہوتی ہے؟

  دوسرا یہ کہ مزدوری اور فصل کی رقم کا خود مختار اس کا شوہر ہوتاہے، کچھ رقم ضرورت کے لیےمیری بہن کو بھی اس سے ملتی ہے۔ شوہر اور بیوی کو اکٹھا تصور کیا جائے گا یا کہ میں اپنی بہن کو الگ سے زکاۃ دے سکتا ہوں؟  نیز یہ بھی راہ نمائی فرمائیں کہ اگر شوہر اور بیوی اکٹھے ہوں، شوہر صاحبِ نصاب ہو تو اس کی بیوی کو  زکاۃ دی جا سکتی ہے اگر وہ بیوی صاحبِ نصاب نہیں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں قرض اور ضروری اخراجات کے بقدر رقم منہا کرنے کے بعد اگر آپ کی بہن کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم نہ بچے اور آپ سید نہیں ہیں تو  اسے زکاۃ دینا جائز ہے، نیز شوہر اگر صاحبِ  نصاب ہو اور بیوی صاحبِ  نصاب نہ ہو تو  اسے زکاۃ دی جاسکتی ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  (4 / 33):
"ولو دفع إلى امرأة فقيرة وزوجها غني جاز في قول أبي حنيفة ومحمد وهو إحدى الروايتين عن أبي يوسف .وروي عنه أنها لاتعطي إذا قضي لها بالنفقة. وجه هذه الرواية أن نفقة المرأة تجب على زوجها فتصير غنيةً بغنى الزوج كالولد الصغير، وإنما شرط القضاء لها بالنفقة ؛ لأن النفقة لاتصير دينًا بدون القضاء . وجه ظاهر الرواية أن المرأة الفقيرة لاتعد غنيةً بغنى زوجها؛ لأنها لاتستحق على زوجها إلا مقدار النفقة فلاتعد بذلك القدر غنية". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں