ایک بندے کو ایک چیز 900 روپے میں ملی، اسکے بعد اس نے اسمیں تصرف کیا اور محنت و مشقت کرکے تیار کیا ،کیا وہ بیچتے ہوئے مشتری کو یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے یہ چیز 1300 میں پڑی؟ واضح رہے کہ اس نے 400 میں اپنی محنت مشقت اور 100 روپے خرچہ بھی ساتھ شامل کیا ہے؟
صورت مسؤلہ میں مذکورہ شخص کا 900 روپے میں کوئی چیز خریدنے کے بعد اس میں کچھ تبدیلی کرنا اور اپنی محنت و مشقت کو خرچہ کے ساتھ ملا کر خریدار کو یہ کہنا کہ یہ چیز مجھے 1300 میں پڑی ہے، درست نہیں ہے ،البتہ 900 روپے کی چیز خریدنے کے بعد اس میں جو خرچہ ہوا ہے ،مثلااس میں کوئی چیز مزید لگائی ہے یا کسی ملازم سے اس چیز کو نئی شکل میں لانے کے لیے کچھ کام لیا ہے یا اس کی تیاری میں بجلی خرچ ہوئی ہےوغیرہ، تو ان خرچوں کا حساب کرکےاصل قیمت کے ساتھ ملا سکتا ہے ،یعنی اگر چیز 900 کی ہے اور اس میں سب خرچے ملاکر 100 روپے کے ہیں تو یہ کہہ سکتاہے کہ یہ چیز مجھے 1000 کی پڑی ہے ۔اپنی محنت کو خرچہ میں شامل نہیں کرسکتا ، اپنی محنت کے عوض نفع لے لے کہ یہ چیز 1000 کی پڑی ہے میں اس میں اپنا نفع 200 یا 300 رکھ کر اتنے کی بیچوں گا ،یا بغیر تفصیل کے ،لم سم خریدار سےکہے اتنے کی فروخت کروں گا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(ويضم) البائع (إلى رأس المال) (أجر القصار والصبغ) بأي لون كان (والطراز) بالكسر علم الثوب (والفتل وحمل الطعام) وسوق الغنم وأجرة الغسل والخياطة (وكسوته) وطعام المبيع بلا سرف وسقي الزرع والكرم وكسحها وكري المسناة والأنهار وغرس الأشجار وتجصيص الدار (وأجرة السمسار)هو الدال على مكان السلعة وصاحبها (المشروطة في العقد) على ما جزم به في الدرر ورجح في البحر الإطلاق وضابطه كل ما يزيد في المبيع أو في قيمته يضم درر واعتمد العيني وغيره عادة التجار بالضم (ويقول قام علي بكذا ولا يقول اشتريته) لأنه كذب وكذا إذا قوم الموروث ونحوه أو باع برقمه لو صادقا في الرقم فتح."
(كتاب البيوع,باب المرابحة والتولية,رد المحتار5/ 135ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100906
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن