میں سعودی عرب میں سپر مارکیٹ میں کمپیوٹر پرکام کرتا ہوں ،کسی کمپنی کے سیلز مین سے ہم سامان خرید تے ہیں ، اور جب ہم اس کو ایکسپائر سامان واپس کرتے ہیں ،تو سامان 9000 ہزار ریال کا ہوگا ، اور کمپنی کے سیلز مین کو بھی معلوم ہے کہ سامان 9000 ہزار ریال کا ہے، لیکن دوکان کا مالک کمپنی کےسیلز مین کو کہتا ہے کہ ہم 9000 ہزار ریال کی جگہ12000 لکھیں گے ، تو کمپنی کا سیلز مین اس پر راضی ہوجائے، اور یہ بل کمپیوٹر پر میں نے بنایا ہے ، میرے لیے اس میں کیا حکم ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب ایکسپائر سامان 9000 ہزار ریال کا ہے،تومالک کا کمپنی سے اضافی رقم وصول کرنے کے لیے بل میں 9000 ریال کے بجائے12000 ہزار ریال لکھوانا جھوٹ ہی نہیں بلکہ جھوٹی گواہی اور دھوکہ دہی کے کے زمرے میں شامل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے ،اور سائل کے لیے ایسا بل بنانا بھی جائز نہیں ہے ،جو ہوگیا سائل اس پر توبہ واستغفار کریں اور آئندہ اس عمل سے اجتناب کر ے ۔
مجمع الزوائد میں ہے:
"وعن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا والمکر والخداع في النّار."
(كتاب البيوع، باب الغش، ج:4، ص:139، ط: دار الفكر)
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال "ما هذا يا صاحب الطعام؟ " قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال " أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ من غش فليس مني."
(كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم " من غشنا فليس منا، ج:1، ص:99، ط: دار إحياء التراث العربي)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"{ولاتعاونوا على الاثم و العدوان}، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم."
(سورة المائده، ج:2، ص:10، ط: دارالسلام)
البحر الرائق میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(كتاب الحدود،ج:5، ص:44، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144508100666
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن