کوئی شخص رمضان المبارک میں دن کے وقت نو دس بجے نیت کر کے روزہ رکھنے کے بعد قصدا اسے توڑ دے تو اس پر قضاء کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہے یا نہیں؟ ہر دو صورت میں اس کی وجہ اور دلیل کے ساتھ مدلل جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔
جو شخص صبح ۹ یا ۱۰ بجے نصف النہار سے پہلے روزہ رکھ کر جان بوجھ کر توڑ دے تو اس شخص پر قضاء واجب ہوگی، کفارہ واجب نہیں ہوگا؛ کیوں کہ صبح صادق کے بعد نصف النہار سے پہلے روزہ کی نیت سے روزہ کے منعقد ہونے میں فقہاء کا اختلاف ہے اور اس اختلاف سے پیدا ہونے والا شبہ کفارہ کو ساقط کردے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(أو لم ينو في رمضان كله صوما ولا فطرا) مع الإمساك لشبهة خلاف زفر (أو أصبح غير ناو للصوم فأكل عمدا) ولو بعد النية قبل الزوال لشبهة خلاف الشافعي: ومفاده أن الصوم بمطلق النية كذلك.»
قوله: لشبهة خلاف الشافعي) فإن الصوم لا يصح عنده بنية النهار كما لا يصح بمطلق النية اهـ ح.
وهذا تعليل لوجوب القضاء دون الكفارة إذا أكل بعد النية أما لو أكل قبلها فالكلام فيه ما علمته في المسألة المارة."
(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و مالا یفسد، ج نمبر۲، ص نمبر ۴۰۳، ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه كذا في الكشف الكبير."
(کتاب الصوم ، النوع الثانی، ج نمبر ۱، ص نمبر ۲۰۶، دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"جاز صوم رمضان، والنذر المعين، والنفل بنية ذلك اليوم أو بنية مطلق الصوم أو بنية النفل من الليل إلى ما قبل نصف النهار، وهو المذكور في الجامع الصغير وذكر القدوري ما بينه وبين الزوال والصحيح الأول."
(کتاب الصوم، باب اول، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۹۵، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603103026
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن