ایک بچی ہے جس کی عمر نو سال ہے اور چوتھی جماعت میں پڑھتی ہے، اس پر بلوغت کے کچھ آثارنہیں ہیں، اور اس کو خون آیا ہے رمضان میں تو اب اس کا کیا حکم ہے؟
نماز اور روزہ دونوں بلوغت کے بعد فرض ہوجاتے ہیں۔ اور لڑکی کے لیے بلوغت کی علامت یہ ہےکہ اسے حیض آجائے یا وہ حاملہ ہوجائے، اگر کم از کم نو سال کی عمر میں ان علامات میں سے کوئی علامت بھی ظاہر ہوجائے تو لڑکی بالغ سمجھی جائے گی اور نماز ، روزہ اس پر فرض ہوجائیں گے، ورنہ پندرہ سال کی عمر میں بالغ سمجھی جائے گی۔
آپ کی ذکر کردہ تصریح کے مطابق جب بچی کو نو سال کی عمر میں ایام آناشروع ہوچکے ہیں تو شرعاً بچی پر جس دن خون آیا ہے اس دن سے روزے رکھنافرض ہوگیا ہے، ناپاکی کے ایام جب ختم ہوجائیں تو جتنے دن ناپاکی کےتھے اتنے دنوں کے روزوں کی بعد میں قضا کرے گی اور پاک ہونے کے بعد سے روزے رکھنا لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فتحصل من هذا أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببًا للولد أو المس الذي يكون سببًا لهذا الوطء ولايخفى أن غير المراهق منهما لايتأتى منه الولد". (3/35دارالفکر)
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4472):
"البلوغ: يحدث البلوغ إما بالأمارات الطبيعية أو بالسن. أما الأمارات أو العلامات الطبيعية، فاختلفت المذاهب في تعدادها:
فقال الحنفية (3): يعرف البلوغ في الغلام بالاحتلام، وإنزال المني، وإحبال المرأة. والمراد من الاحتلام هو خروج المني في نوم أو يقظة، بجماع أو غيره".
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4473):
"وأدنى مدة البلوغ للغلام اثنتا عشرة سنةً، وللأنثى تسع سنين، وهو المختار عند الحنفية". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202218
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن