بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مسجد کی ملکیت میں موجود ضرورت سے زائد چیزیں قیمتاً لے سکتے ہیں؟


سوال

 کیا مسجد کی ملکیت میں موجود ضرورت سے زائد چیزیں قیمتا" خرید کر استعمال کر سکتے ہیں?

جواب

اگر مسجد کے لیے وقف اشیاء فی الحال استعمال میں نہ ہوں، لیکن آئندہ استعمال کی امید ہو اور وہ اشیاء محفوظ رہ سکتی ہوں تو انہیں فروخت نہ کیا جائے، بلکہ محفوظ رکھا جائے اور بوقتِ ضرورت اسی مسجد میں ہی استعمال کیا جائے،  البتہ اگر آئندہ استعمال کی امید نہ ہو، یا محفوظ کرنا ممکن نہ ہو، ضائع ہونے کا امکان ہو تو مسجد  کی ملکیت میں موجود زائد از ضرورت اشیاء کو بیچنا اور خریدنے والے کے لیے خرید کر استعمال کرنا جائز ہے بشرطیکہ قیمتِ فروخت کو  مسجد میں ہی صرف کیا جائے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار (4 / 359):
"(قوله: ومثله حشيش المسجد الخ) أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر كما يفعل في بعض البلاد كبلاد الصعيد كما أخبرني به بعضهم، قال الزيلعي: و على هذا حصير المسجد وحشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد، و عند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر، و على هذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما اهـ  وصرح في الخانية بأن الفتوى على قول محمد، قال في البحر: و به علم أن الفتوى على قول محمد في آلات المسجد، و على قول أبي يوسف في تأبيد المسجد اهـ  والمراد بآلات المسجد نحو القنديل والحصير، بخلاف أنقاضه لما قدمنا عنه قريبًا من أن الفتوى على أن المسجد لايعود ميراثًا ولايجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں