بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

786 کے استعمال کا حکم


سوال

786 کی حقیقت کیا ہے اور اس کا استعمال درست ہے یا نہیں؟

جواب

حروفِ تہجی سے خاص اعداد اور اعداد سے خاص کلمات مراد لینا اہلِ عرب میں قدیم زمانہ سے رائج ہے،  اور تاریخ میں تعویذات میں اس فن سے استفادہ  کا سلف کا معمول رہا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص بغرضِ احتیاط  تسمیہ کی بجائے اس کے اعداد "786" لکھے تو  اس کا یہ عمل ناجائز نہیں کہلائے گا،  علم الاعداد  میں حروف ابجد کے اعتبار سے 786 بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عدد ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

ب: 2 س: 60 م: 40 ا: 1 ل: 30 ل: 30 ہ: 5 ا: 1 ل: 30 ر: 200 ح: 8 م: 40 ن: 50 ا: 1 ل: 30 ر: 200 ح: 8 ی: 10 م: 40

پس ان تمام حروف کا عددی مجموعہ 786 بنتا ہے۔

رہی بات یہ کہ 786  لکھنا کیسا ہے؟ اور اس کے لکھنے سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے اور پڑھنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ 786 نہ  تو بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے اور نہ ہی اس کے قائم مقام یا بدل ہے، بلکہ یہ کاتب کی جانب سے  ایک علامت ہے کہ اس نے ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی ہے؛ لہذا قاری بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لے، پس 786 کو عین بسم اللہ سمجھنا  یا اس کے قائم مقام قرار دینا درست نہیں۔ اور  نہ ہی 786 لکھنے سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کا ثواب ملتا ہے۔ البتہ علامت کے طور پر لکھنا درست ہے اور  قریبی سلف صالحین سے اس کا لکھنا ثابت بھی ہے، لہذا اسے غلط قرار دینا یا شرک و بدعت کا نام دینا بھی درست نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں