بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کسی جانور کو ذبح کر کے صدقہ دینا جائز ہے ؟


سوال

کیا کسی جانور کو ذبح کر کے صدقہ دینا جائز ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے؟

جواب

صدقہ کے بارے میں شریعت نے کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی کہ صدقہ کا اسی طرح ادا کرنا ضروری ہو، بلکہ اصول یہ ہے کی جس چیز میں فقراء کا زیادہ  فائدہ ہو وہی چیز بطور صدقہ دینا افضل ہے، عام حالات میں جانور صدقہ کرنے کی بجائے جانور کی قیمت صدقہ کرنے میں  زیادہ فضیلت ہے؛ کیوں کہ نقدی سے فقیر  اپنی ہرقسم کی حاجت پوری کرسکتا ہے، اور جانور صدقہ کرنے میں مصلحت ہو تو اس کی بھی اجازت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اونٹ وغیرہ  بحالتِ زندہ صدقہ کرنے کا ثبوت موجود ہے۔

نیز اگر کسی مریض کی شفا یابی کی غرض سے جانور ذبح کرکے صدقہ کیا جارہا ہو  اور جان کے بدلے جان کا عقیدہ ہو تو ایسا صدقہ شرعًا جائز نہیں ہے۔

صحيح البخاري (1 / 56):

"عن أنس بن مالك، قال: قدم أناس من عكل أو عرينة، فاجتووا المدينة «فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم بلقاح، وأن يشربوا من أبوالها وألبانها» فانطلقوا، فلما صحوا، قتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم، واستاقوا النعم، فجاء الخبر في أول النهار، فبعث في آثارهم، فلما ارتفع النهار جيء بهم، «فأمر فقطع أيديهم وأرجلهم، وسمرت أعينهم، وألقوا في الحرة، يستسقون فلايسقون» . قال أبو قلابة: «فهؤلاء سرقوا وقتلوا، وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله»"

امداد الفتاوی میں ہے:

’’ ۔۔۔ اگر بطور شکر کے ذبح کرے اس میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ خود ذبح مقصود نہیں، بلکہ مقصود اعطاء یا اطعامِ مساکین ہے،  ذبح محض اس کا  ذریعہ ہے سہولت کے لیے، اور   علامت اس تصدق کے مقصود ہونے اور ذبح کے مقصود نہ ہونے کی یہ ہے کہ اگر اتنا ہی اور ویسا ہی گوشت کسی دکان سے مل جاوے تو انشراحِ خاطر سے اس پر اکتفا کرے، ذبح کا اہتمام نہ کرے، تب تو یہ ذبح جائز ہے۔  اور دوسری صورت یہ ہے کہ خود ذبح  ہی مقصود ہو اور ذبح ہی کو بخصوصہ طریقہ شکر و قربت سمجھے، سو قواعد سے یہ درست معلوم نہیں ہوتا۔..  اسی طرح خصوصیت کے ساتھ اکثر عوام، بلکہ ممتاز لوگوں  میں یہ رسم ہے کہ مریض کی طرف سے جانور ذبح کرتے ہیں یا وبا وغیرہ کے دفع کے لیے ایسا ہی کرتے ہیں، سو چوں کہ قرائنِ قویہ سے ان مواقع پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ  خود ذبح ہی مقصود ہے اور اسی کو مؤثر فی دفع البلاء خصوصاً مرض کی حالت میں اس ذبیحہ کو من حیث الذبح فدیہ  سمجھتے ہیں، سو اس کا حکم بھی قواعد سے عدمِ جواز معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (امداد الفتاوی: ۳/ ۵۷۰)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’زندہ جانور صدقہ کردینابہتر ہے، شفائے مریض کی غرض سے ذبح کرنا اگر محض لوجہ اللہ (رضائے الہی کے لیے) ہو تو مباح تو ہے، لیکن اصل مقصد بالاراقۃ (خون بہانے سے )صدقہ ہونا چاہیے نہ کہ فدیہ جان بجان‘‘۔(8/252)

   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں