بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

75 کلو میٹر مسافت پر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 میں ایک سرکاری ملازم ہوں، اور ان دنوں اپنے گھر سےپچھتر کلو میٹر دور ملتان ڈیوٹی پر جاتا ہوں، میری  یہاں ڈیوٹی کا عرصہ تین سال تک کا ہے، میں ضلع خانیوال کے ایک گاؤں میں رہتا ہوں، میں بروز پیر صبح ڈیوٹی پر  آتا ہوں، اور جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بعد گھر واپس   چلا جاتا ہوں، ہفتہ اور اتوار  کی میری چھٹی ہوتی ہے، پوچھنا یہ ہے، کہ میں ڈیوٹی سٹیشن پر نماز  پوری پڑھوں یا قصر کروں؟ دوسرا سوال یہ ہے، کہ میں ابھی ملتان ایک ہسپتال میں ایڈمٹ ہوں، اور بمشکل ویل چیئر  پر ہی  حرکت کر سکتا ہوں،دونوں ٹانگوں  کا آپریشن  ہوا  ہے،لہذا  اس دوران میں  نماز قصر  کے ساتھ  پڑھوں یا پوری نماز ادا کروں ؟ واضح کرتا چلوں میں ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے  کے ارادے سے نہیں آیا تھا ، فقط دوا لینے آیا تھا،  لیکن ڈاکٹرز نے ایڈمٹ کرنے کا  فیصلہ کیا،مزید یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میں جب سے ملتان ڈیوٹی کے لیے آ رہا ہوں، ملتان میں مکمل نماز ہی ادا کر رہا ہوں، کبھی کبھی امامت کا فریضہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن جب سے میں ایڈمٹ ہوا ہوں، اس دن سے تکلیف کی وجہ سے قصر کر لیتا ہوں، کیا میرا اس طرح کرنا درست ہے؟شریعت کی رو سے درست ہے یا  نہیں، حل بھی مرحمت فرمائیں۔  

جواب

صورتِ میں  سائل کے  گاؤں سے لے کر  اس کی  جائے ملازمت (ملتان )کے درمیان کا فاصلہ اگر  مسافت شرعی(77.24) سوا ستتر کلو میٹر  یا اس سے زائد ہے، اور جائے ملازمت میں کبھی پندرہ دن یا اس سے زائد دن کےقیام کی نیت  کے ساتھ نہیں  رہے، تو ایسی صورت میں سائل اپنی جائے ملازمت  (ملتان) میں مسافر ہوگا،سفر کے احکامات جاری ہو ں گے، اسی طرح ملتان کے ہسپتال ایڈمٹ ہونے کے دوران پندرہ دن کے قیام کی نیت نہ ہو تو وہاں قصر کی نماز ہی پڑھنی ہوگی۔اور اگر  گھر  سے  لے کر  جائے  ملازمت یعنی ملتان کے درمیان مسافت شرعی مسافت سے کم ہو تو  سائل ملتان میں مقیم شمار  ہو گا، لہذا  اقامت کی صورت میں  سائل نے جتنی نمازیں قصر کے  اعتبار سے ادا  کی  ہیں، ان کی قضا  لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(قوله:  علی المذهب) ... ثم اختلفو ا فقیل: أحد و عشرون، و قیل: ثمانیة عشر، و قیل: خمسة عشر، و الفتوى على الثانی؛ لأنه الأوسط ...  الخ "

(الفتاوي الشامي، کتاب الصلوة، باب صلاة المسافر، ج:2 ص:123  ط:سعی

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو بينه وبين بلده يومان لأنه يقبل النقض قبل استحكامه إذ لم يتم علة فكانت الإقامة نقضا للسفر العارض، لا ابتداء علة للإتمام أفاده في الفتح."

(الفتاو ي الشامي، کتاب الصلوة، باب : الصلوة المسافر، ج:2 ص:125 ط:سعید)

فتاوی ھندیۃ  میں ہے:

"(الباب الخامس عشر في صلاة المسافر) أقل مسافة تتغير فيها الأحكام مسيرة ثلاثة أيام، كذا في التبيين، هو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي الأحكام التي تتغير بالسفر هي قصر الصلاة واباحة الفطر وامتداده مدة المسح إلى ثلاثة أيام وسقوط وجوب الجمعة والعيدين والأضحية وحرمة الخروج على الحرة بغير محرم، كذا في العتابية."

(الفتاوي الھندیة، کتاب الصلوة، الباب الخامس عشر فی صلوة المسافر، ج:1  ص:138  ط: دار الفکر بیروت)

البحر الرائق  میں ہے:

"(قول المصنف: سيرًا وسطًا) قال الشارح الزيلعي وسطا صفة لمصدر محذوف والعامل فيه السير المذكور؛ لأنه مقدر بأن والفعل تقديره مريدا أن يسير سيرا وسطا في ثلاثة أيام ومراده التقدير لا أن يسير فيها سيرا وسطا، ولا أن يريد ذلك السير، وإنما يريد قدر تلك المسافة وكان ينبغي أن يقول مريدا سيرا وسطا في بر أو بحر أي مريدا مسيرة ثلاثة أيام بسير وسط أو نقول في كلامه تقديم وتأخير وحذف تقديره مريدا ثلاثة أيام سيرا وسطا أي بسير وسط اهـ.."

(البحر الرائق، کتاب الصلوة، باب الصلوة المسافر، ج: 2 ص: 149 ط: دار الکتاب الإسلامی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں